کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 120
{ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ أَمْرًا أَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا } [1] ’’اور جب اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کسی معاملے میں فیصلہ کردیں،تو کسی ایمان والے مرد اور عورت کے لیے اس بارے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا اور جو کوئی اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی نافرمانی کرے،وہ کھلی گم راہی میں پڑگیا۔‘‘ مزید برآں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابن اُمّ مکتوم رضی اللہ عنہ کے لیے بیان کردہ جواب کے متعلق دیگر دو روایتوں کے الفاظ حسبِ ذیل ہیں: ا:[لَا أَجِدُ لَکَ رُخْصَۃً ]۔ ’’میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا۔‘‘ ب:[مَا أَجِدُ لَکَ رُخْصَۃً ]۔ ’’میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا۔‘‘ ان دونوں روایات کے الفاظ کے مطابق باجماعت نماز سے پیچھے رہنے کے لیے کسی بھی قسم کی اجازت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی،کیونکہ دونوں میں لفظ[رُخْصَۃً] نکرہ ہے اور اس سے پہلے[لَا] نفی کے لیے ہے اور نفی کے بعد نکرہ کے آنے سے عموم کی نفی ہوتی ہے۔واللہ تعالیٰ أعلم۔ ۴:مذکورہ بالا پانچ روایات کے حوالے سے متعدد علمائے امت نے باجماعت نماز کی فرضیّت کی صراحت کی ہے۔ان میں سے چھ کے بیانات ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:
[1] سورۃ الأحزاب / الآیۃ ۳۶۔