کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 119
ان تینوں روایات کے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان سننے پر[صیغہ امر] کے ساتھ باجماعت نماز کے لیے آنے کا حکم دیا ہے،بلکہ تیسری روایت کے الفاظ کے مطابق یہ حکم دو دفعہ دیا ہے۔[فَحَيَّ] کا معنی(آؤ)اور[ہَلًا] سے مراد(جلدی کرو)ہے۔[1] [صیغۂ امر] وجوب پر دلالت کرتا ہے۔کسی ایمان والے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا،صیغۂ امر کے ساتھ فرمایا ہوا حکم سن کر تردّد،چون وچرا،قیل وقال یا تاخیر کی گنجائش کیونکر باقی رہ سکتی ہے؟ مزید برآں قابلِ غور بات یہ ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت نماز کے لیے مسجد میں حاضری کا حکم دو دفعہ صیغہ امر کے ساتھ دیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: { فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}[2] ’’پس آپ کے ربّ کی قسم! وہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے،جب تک کہ وہ آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں،پھر اپنے دلوں میں آپ کے فیصلے سے تنگی محسوس نہ کریں اور اسے پورے طور سے تسلیم کریں۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر ارشادِ ربانی ہے:
[1] (فَحَيَّ ہَلًا) کو دو کلمات سے بنایا گیا ہے۔ [فَحَيَّ] کا معنی: ’’أَقْبِلْ‘‘ (آؤ) اور [ہَلًا] کا معنی: ’’أَسْرِعْ‘‘ [جلدی کرو]۔ ان دونوں کلمات کو مبالغہ کی غرض سے ایک [کلمہ] میں جمع کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مرعاۃ المفاتیح ۳/ ۵۴۵) ۔ [2] سورۃ النسآء / الآیۃ ۶۵۔