کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 118
کے ساتھ مبعوث فرمایا۔[1] وہ شخصیت کہ جائز باتوں میں سے آسان بات منتخب فرماتے [2] اور جنہوں نے امت کو آسانی کرنے اور بشارت دینے کا حکم دیا اور لوگوں پر تنگی کرنے اور انہیں متنفر کرنے سے منع فرمایا۔[3] ۳:پیکرِ شفقت اور مجسمۂِ رحمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے صحابی کے سات عذر سننے کے بعد فرمائے ہوئے[الفاظِ مبارکہ] تین روایات کے مطابق حسبِ ذیل تھے: ا:’’ فَأَجِبْ ‘‘۔ [سو تم(باجماعت نماز کے لیے اللہ کی دعوت)قبول کرو]۔ ب:’’ فَأْتِہَا ‘‘۔ [سو تم اس(یعنی باجماعت نماز)کے لیے آؤ]۔ ج:’’ فَحَيَّ ہَلًا ‘‘۔ [سو تم جلدی آؤ]۔
[1] ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’ إِني أُرْسِلْتُ بِحَنِیْفِیَّۃٍ سَمْحَۃٍ ‘‘۔ (المسند، جزء من رقم الحدیث ۲۴۸۵۵، ۴۱/ ۳۴۹ عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا )۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اسے [قوی] اور اس کی [سند کو حسن] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ہامش المسند ۴۱/ ۳۴۹) [ترجمہ: مجھے (ابراہیم علیہ السلام) حنیف کے آسان دین کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے]۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: راقم السطور کی کتاب: ’’حج وعمرے کی آسانیاں‘‘ صفحات۳۷۔۴۰۔ [2] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: ’’مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم بَیْنَ أَمْرَیْنِ قَطُّ إِلَّا أَخَذَ أَیْسَرَہُمَا مَا لَمْ یَکُنْ إِثْمًا ‘‘۔ (صحیح البخاري، کتاب الأدب، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم : ’’ یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا‘‘، جزء من رقم الحدیث ۶۱۲۶، ۱۰/ ۵۲۴)۔ [جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں میں سے ایک چننے کا اختیار دیا گیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ان میں سے آسان چیز انتخاب فرمائی، بشرطیکہ اس میں گناہ کا پہلو نہ ہوتا]۔ [3] ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’ یَسِّرُوْا، وَلَا تُعَسِّرُوْا، وَبَشِّرُوْا، وَلَا تُنَفِّرُوْا ‘‘ ۔ (صحیح البخاري، کتاب العلم، باب ما کان النبي صلي الله عليه وسلم یتخولہم بالموعظۃ کي لا ینفروا، رقم الحدیث ۶۹، ۱/ ۶۳)۔ [ترجمہ: آسانی کرو اور تنگی نہ کرو، بشارت دو اور متنفر نہ کرو]۔