کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 117
’’میں تمہارے لیے(بالکل)اجازت نہیں پاتا۔اگر باجماعت نماز سے اس پیچھے رہنے والے شخص کو خبر ہوجائے،کہ اس کی خاطر جانے والے کے لیے کیا(اجر وثواب)ہے،تو وہ اس کے لیے حاضر ہوتا،اگرچہ اسے اپنے دونوں ہاتھوں اور دونوں قدموں پر گھسٹ کر آنا پڑتا۔‘‘ مذکورہ بالا روایات کے حوالے سے آٹھ باتیں: ۱:حضرت ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ نے مسجد میں باجماعت نماز چھوڑ کر گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت کے لیے درجِ ذیل سات عذر پیش کیے۔ ا:بینائی سے محرومی۔ ب:گھر کی مسجد سے دُوری۔ ج:باقاعدگی سے ہمراہ لانے والے راہ نما کا میسّر نہ آنا۔ د:گھر اور مسجد کے درمیان کھجوروں اور دیگر اقسام کے درخت۔ ہ:مدینہ طیبّہ میں کیڑوں اور درندوں کی کثرت۔ و:عمر رسیدہ ہونا۔ ز:ہڈیوں کا کمزور ہونا۔ ۲:یہ عذر ر ایسی شفیق اور مہربان شخصیت کے حضور پیش کیے گئے،جنہیں اللہ تعالیٰ نے[رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْن] [1] اور[آسانی کرنے والے معلّم] [2] بنا کر،آسان دین
[1] ارشادِ ربانی ہے: { وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ} (سورۃ الأنبیآء/ الآیۃ ۱۰۷)۔ [ترجمہ: اور ہم نے آپ کو سارے جہاں والوں کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے]۔ [2] ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : ’’وَلٰکِنِّیْ بَعَثَنِيْ مُعَلِّمًا مُیَسِّرًا‘‘۔ ملاحظہ ہو: (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب بیان أن تخییر امرأۃ لا یکون…، جزء من رقم الحدیث ۲۹۔ (۱۴۷۸) ، ۲/۱۱۰۵ عن جابر بن عبد اللّٰه رضی اللّٰه عنہما )۔ [بلکہ مجھے آسانی کرنے والا معلم بنا کر مبعوث فرمایا]۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: راقم السطور کی کتاب: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم‘‘ ص ۴۲۶۔ ۴۳۸)۔