کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 116
انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عرض کیا:
’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔صلي اللّٰه عليه وسلم۔! بِأَبِيْ وَأُمِّيْ أَنَا کَمَا تَرَانِيْ،قَدْ دَبَرَتْ سِنِّيِْ،وَرَقَّ عَظْمِيْ،وَذَہَبَ بَصَرِيْ،وَلِيْ قَائِدٌ لَا یُلَایِمُنِيْ قِیَادُہُ إِیَّايَ،فَہَلْ تَجِدُ لِيْ رُخْصَۃً أُصَلِّيْ فِيْ بَیْتِيْ الصَّلَوَاتِ؟‘‘
’’یا رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔! میرے ماں باپ(آپ پر قربان!)میں،جیسے کہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں،کہ میری عمر بیت چکی ہے،ہڈیاں کمزور پڑ گئی ہیں،بینائی جاچکی ہے اور میرے ساتھی راہ نما کی آنے جانے میں مجھ سے موافقت نہیں،تو کیا آپ میرے لیے نمازوں کے اپنے گھر پڑھنے کی اجازت پاتے ہیں؟‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
’’ ہَلْ تَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ فِيْ الْبَیْتِ الَّذِيْ أَنْتَ فِیْہِ؟‘‘۔
’’جس گھر میں تم ہو،کیا اس میں مؤذن(کی آواز)سنتے ہو؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:
’’ نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔صلي اللّٰه عليه وسلم۔‘‘۔
’’(جی)ہاں،یا رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔!‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مَا أَجِدُ لَکَ رُخْصَۃً،وَلَوْ یَعْلَمُ ہٰذَا الْمُتَخَلِّفُ عَنِ الصَّلَاۃِ فِيْ الْجَمَاعَۃِ،مَا لِہٰذَا الْمَاشِيْ إِلَیْہَا،لَأَتَاہَا وَلَوْ حَبْوًاعَلٰی یَدَیْہِ وَرِجْلَیْہِ ‘‘۔[1]
[1] منقول از: الترغیب والترہیب، کتاب الصلاۃ، الترہیب من ترک حضور الجماعۃ لغیر عذر، ۱/ ۲۷۶۔ ۲۷۷۔ شیخ البانی نے اسے [حسن] قرار دیا۔ ملاحظہ فرمائیے: صحیح ترغیب والترھیب۱/۳۰۲۔