کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 115
’’پس تم(اس کی خاطر)آؤ۔‘‘(یعنی باجماعت نماز کے لیے مسجد آؤ۔) د:حضراتِ ائمہ ابوداؤد،ابن خزیمہ اور حاکم نے حضرت ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے عرض کیا: ’’ یا رسول اللّٰهِ۔صلي اللّٰه عليه وسلم۔! إِنَّ الْمَدِیْنَۃَ کَثِیْرَۃُ الْہَوَامِّ وَالسِّبَاعِ‘‘۔ ’’یا رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔! بے شک مدینہ(طیبہ)میں کیڑے مکوڑے اور درندے کثرت سے ہیں۔‘‘ نبی کریم۔صلی اللہ علیہ وسلم۔نے فرمایا: ’’ تَسْمَعُ(أَ تَسْمَعُ)[1] حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ،حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔فَحَيَّ ہَلًا‘‘۔[2] ’’تم(کیا تم)[حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ][حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ] سنتے ہو۔سو تم جلد(باجماعت نماز کی خاطر مسجد)آؤ۔‘‘ ہ:امام طبرانی نے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بینائی سے محروم ابن اُمّ مکتوم۔رضی اللہ عنہ۔حاضر ہوئے اور وہ وہی ہیں،جن کے بارے میں: [عَبَسَ وَتَوَلّٰی أَنْ جَائَ ہُ الْأَعْمٰی ] [3] نازل ہوئی اور وہ قریش میں سے تھے۔
[1] راوی کو شک ہے، کہ اس نے [تَسْمَعُ] کے الفاظ سنے یا [أَ تَسْمَعُ] کے۔ [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث ۵۴۸، ۲/۲۵۷؛ وصحیح ابن خزیمۃ، کتاب الإمامۃ في الصلاۃ، رقم الحدیث ۱۴۷۸، ۲/ ۳۶۷، والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الصلاۃ، ۱/ ۲۴۶۔ ۲۴۷۔ امام حاکم نے اس کی [سند کو صحیح] اور حافظ ذہبی اور شیخ البانی نے [اسے صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱/ ۲۴۷، والتلخیص ۱/ ۲۴۷، وصحیح سنن أبي داود ۱/ ۱۱۰)۔ [3] سورۃ عبس/ الآیتان ۱۔۲۔ [ترجمہ: انہوں نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا، کہ ان کے پاس اندھا آیا]۔