کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 114
کروں،پھر میں(خود)(باہر)نکل آؤں اور(باجماعت)نماز سے اپنے گھر میں پیچھے رہنے والا جو شخص(بھی)میرے قابو میں آئے،تو اس کے گھر کو،اس سمیت جلا دوں۔‘‘
(یہ سن کر)ابن اُمّ مکتوم … رضی اللہ عنہ … نے عرض کیا:
’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ بَیْنِيْ وَبَیْنَ الْمَسْجِدِ نَخْلًا وَشَجَرًا،وَلَا أَقْدِرُ عَلٰی قَائِدٍ کُلَّ سَاعَۃٍ،أَیَسَعُنِيْ أَنْ أَصَلِّيَ فِيْ بَیْتِيْ؟‘‘
’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک میرے اور مسجد کے درمیان کھجوروں کے اور دوسرے درخت ہیں اور میں ہر وقت(ہمراہ لانے والا)راہ نما بھی نہیں پاتا،تو کیا میرے لیے اپنے گھر میں نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے؟‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
’’ أَتَسْمَعُ الْإِقَامَۃَ؟‘‘۔
’’کیا تم اقامت [1] سنتے ہو؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:’’(جی)ہاں۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ فَأْتِہَا ‘‘۔[2]
[1] شیخ احمد البنا لکھتے ہیں، کہ یہاں [اقامت] سے مراد [اذان] ہے، جیسے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (ملاحظہ ہو: بلوغ الأماني ۵/ ۱۷۸)۔
[2] المسند، رقم الحدیث ۱۵۴۹۱، ۲۴/ ۲۴۵۔ حافظ منذری نے اس کی [سند کو جید]، حافظ ہیثمی نے اس کے [راویان کو صحیح کے روایت کرنے والے] اور شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اسے [صحیح لغیرہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: الترغیب والترہیب ۱/ ۲۷۴؛ ومجمع الزوائد ۲/ ۴۲؛ وہامش المسند ۲۴/ ۲۴۵)۔ اسی مفہوم کی حدیث امام ابن منذر اور امام حاکم نے بھی روایت کی ہے اور امام حاکم نے اس کی [سند کو صحیح] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کے ساتھ موافقت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: کتاب الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف، کتاب الإمامۃ، رقم الحدیث ۱۸۹۱، ۴/ ۱۳۲؛ والمستدرک علی الصحیحین ۱/ ۲۴۷؛ والتلخیص ۱/ ۲۴۷)۔