کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 109
کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لَا یَسْمَعُ النِّدَائَ فِيْ مَسْجِدِيْ ہٰذَا،ثُمَّ یَخْرُجُ مِنْہُ إِلَّا لِحَاجَۃٍ،ثُمَّ لَا یَرْجِعُ إِلَیْہِ،إِلَّا مُنَافِقٌ ‘‘۔[1] ’’میری اس مسجد سے اذان سن کر،بلاضرورت نکل کر واپس نہ آنے والا منافق ہی ہے۔‘‘ اگر نماز کا باجماعت ادا کرنا فرض نہ ہوتا،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعد از اذان مسجد سے نکلنے سے نہ روکتے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایسے نکلنے پر[آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے] کا فتویٰ چسپاں نہ کرتے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کو منافق قرار نہ دیتے۔ امام ابن منذر نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ وَلَوْ کَانَ الْمَرْئُ مُخَیَّرًا فِيْ تَرْکِ الْجَمَاعَۃِ وَإِتْیَانِہَا،لَمْ یَجُزْ أَنْ یَقْضِيَ مَنْ تَخَلَّفَ عَمَّا لَا یَجِبْ عَلَیْہِ،أَنْ یَحْضُرَہُ‘‘۔[2] ’’اگر باجماعت نماز ادا کرنے اور اسے ترک کرنے کا بندے کو اختیار ہوتا،تو ایسے غیر واجب عمل سے پیچھے رہنے والے کے متعلق یہ حکم دینا،کہ وہ اس میں حاضر ہو،درست نہ ہوتا۔‘‘
[1] منقول از: مجع الزوائد و منبع الفوائد، کتاب الصلاۃ، باب فیمن خرج من المسجد بعد الأذان، ۲/۵۔ حافظ ہیثمی لکھتے ہیں: ’’اسے طبرانی نے [المعجم] الأوسط میں روایت کیا ہے اور [اس کے روایت کرنے والے صحیح کے راویان ہیں]۔‘‘ المرجع السابق ۲/۵)۔ [2] الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف ۴/ ۱۳۵۔