کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 106
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بات کے لیے حکم دینا،اس کے واجب ہونے پر ہی دلالت کرتا ہے۔امام ابن قیم اس حدیث سے باجماعت نماز کے واجب ہونے پر استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ وَوَجْہُ الْاِسْتِدْلَالِ بِہٖ أَنَّہُ أَمَرَ بِالْجَمَاعَۃِ،وَأَمْرُہُ یَدُلُّ عَلَی الْوُجُوْبِ ‘‘۔[1] ’’اور اس سے وجۂ استدلال یہ ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کا حکم دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دینا وجوب پر دلالت کرتا ہے۔‘‘ نماز باجماعت کے متعلق حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے دو باتیں: ۱:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت نماز قائم کرنے کا حکم صرف اسی وقت نہیں دیا،کہ جب لوگوں کی تعداد زیادہ ہو،بلکہ تین اشخاص کے موجود ہونے پر بھی اس کا حکم دیا۔امام مسلم نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ إِذَا کَانُوْا ثَلَاثَۃً فَلْیَؤُمَّہُمْ أَحَدُہُمْ،وَأَحَقُّہُمْ بِالْاِمَامَۃِ أَقْرَؤُہُمْ‘‘۔[2] ’’جب وہ تین ہوں،تو ان میں سے ایک ان کی امامت کروائے اور ان میں امامت کا سب سے زیادہ مستحق سب سے زیادہ(قرآنِ کریم)پڑھنے والا ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین اشخاص موجود ہونے پر ہی نہیں،بلکہ صرف دو اشخاص
[1] کتاب الصلاۃ ص ۷۰۔ [2] صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ، رقم الحدیث ۲۸۹۔ (۶۷۲)، ۶۷۴، ۱/ ۴۶۴۔