کتاب: نماز باجماعت کی اہمیت - صفحہ 102
اور ایسے کاموں کی اجازت دی،جن کا بلا عذر کرنا درست نہیں،جیسے کہ نماز میں قبلہ کی طرف پشت کرنا،عملِ کثیر،کیونکہ اس بات پر اتفاق ہے،کہ بلاعذر ایسا کرنا جائز نہیں۔اسی طرح جمہور کے نزدیک سلام سے پہلے امام سے الگ ہونا،اسی طرح امام کی متابعت سے گریز کرنا،جیسے کہ دشمن کے سامنے ہونے کی صورت میں پچھلی صف والوں کا امام کے ساتھ رکوع کے بعد پیچھے ہٹنا۔ انہوں(یعنی علماء)نے بیان کیا:’’ان کاموں کے بلاعذر کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔اگر جماعت واجب کی بجائے مستحب ہوتی،تو اس پر نماز فاسد کرنے والا ممنوعہ کام کرنا لازم آتا،ایک مستحب کام کی خاطر امام کی متابعت،جو کہ واجب ہے،کا ترک کرنا لازم آتا ہے،حالانکہ یہ ممکن تھا،کہ وہ انفرادی طور پر پوری نماز ادا کرلیتے۔سو اس سے معلوم ہوا،کہ بلاشبہ وہ(یعنی جماعت)واجب ہے۔‘‘ ج:اسی بارے میں حافظ ابن کثیر رقم طراز ہیں: ’’وَ مَا أَحْسَنَ مَا اسْتَدَلَّ بِہِ مَنْ ذَہَبَ إِلٰی وُجُوْبِ الْجَمَاعَۃِ مِنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ الْکَرِیْمَۃِ حَیْثُ اغْتُفِرَتْ أَفْعَالٌ کَثِیْرَۃٌ لِأَجْلِ الْجَمَاعَۃِ،فَلَوْلَا أَنَّہَا وَاجِبَۃٌ مَا سَاغَ ذٰلِکَ‘‘۔[1] ’’اور جماعت کو واجب کہنے والے کا اس آیت کریمہ سے یہ استدلال کس قدر خوب صورت ہے،کہ(نماز کے)بہت سے اعمال سے جماعت کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی۔اگر وہ واجب نہ ہوتی،تو ایسا کرنا درست نہ ہوتا۔‘‘ د:اسی آیت شریفہ سے باجماعت نماز کے وجوب پر استدلال کرتے ہوئے امام
[1] تفسیر ابن کثیر ۱/ ۶۰۲۔