کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 68
سے دیا جاتا ہے۔ گزشتہ صفحات میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ خاندانی نظم میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو قوام یا محافظ بنانے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ مرد اپنے خاندان (یعنی بیوی بچوں) پر اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سورہ نساء ، آیت نمبر33) جس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کے بعد اول روز سے ہی گھر بنانے اور چلانے کے تمام اخراجات مرد کے ذمہ ہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کے حقوق متعین کرتے ہوئے یہ بات بیوی کے حقوق میں شامل فرمائی ہے کہ ان کا نان نفقہ ہر صورت میں مرد کے ذمہ ہے ، خواہ عورت کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو (ملاحظہ ہو کتاب ہذا ’’بیوی کے حقوق‘‘) نکاح کے وقت شریعت نے مرد پر یہ فرض عائد کیا ہے کہ وہ حسب استطاعت عورت کو ’’مہر‘‘ ادا کرے یہ بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کی نظر میں مرد عورت پر خرچ کرنے کا پابند ہے، عورت خرچ کرنے کی پابند نہیں۔ زکاۃ کی ادائیگی میں بھی شریعت نے اسی اصول کو پیش نظر رکھا ہے ۔شوہر چونکہ قانونی طور پر بیوی کے نان نفقہ کا ذمہ دار ہے ،لہٰذا مالدار شوہر اپنی بیوی کو زکاۃ نہیں دے سکتا جبکہ مالدار بیوی اپنے شوہر کو اس لئے زکاۃ دے سکتی ہے کہ وہ قانونی طور پر مرد کے اخراجات کی ذمہ دار نہیں۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری ، باب الزکاۃ علی الزوج) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چار صاحبزادیوں کی شادی کی ۔ ا ن میں سے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو کسی قسم کا جہیز دینا ثابت نہیں ، البتہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا ایک ہار دیا تھا جو جنگ بدر میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو چھڑوانے کے لئے بطور فدیہ بھجوایا تھا جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کے بعد واپس بھجوا دیا ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مہر میں ایک ڈھال دی تھی جسے فروخت کرکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو گھر کا ضروری سامان ، پانی کی مشک، تکیہ ، ایک چادرو غیرہ بنا کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ حسنہ سے زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص نادار اور غریب ہو تو عورت کے والدین حسب استطاعت اپنے داماد سے تعاون کرنے کے لئے گھر کا بنیادی اور ضروری سامان دے سکتے ہیں۔ آج کل جس طرح نکاح سے قبل جہیز کے لئے مطالبات ہوتے ہیں اور پھر نکاح کے موقع پر جس اہتمام کے ساتھ اس کی نمائش ہوتی ہے ، شرعاً حرام ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے ’’اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے اور فخر کرنے والے آدمی کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورہ لقمان ، آیت نمبر8)حدیث شریف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا عبرتناک واقعہ بیان