کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 63
2- آکسفورڈ کے اسلامک سٹڈیز سنٹر میں ساؤتھ افریقہ کے صدر نیلسن منڈیلانے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’اسلام مکمل راہنمائی کرنے والا واحد فلسفہ حیات ہے۔ براعظم افریقہ میں لوگ جوں جوں اسلام کا عمیق نظر سے مطالعہ کریں گے تو ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق پائی جانے والی بدگمانیوں کا ازالہ نا گزیر ہوگا۔ میں دعویٰ سے کہہ رہا ہوں کہ اب یہاں (مغرب میں) بھی اسلام کا بتدریج فروغ یقینی ہو گیا ہے۔‘‘[1]
3- مراکش میں متعین جرمن سفیر ولفریڈ ہوف مین نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلامی تعزیرات پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں چوری کی سزا ، ہاتھ کاٹنا ، قتل کا بدلہ قتل اور زنا کی سزا سنگسار کرنے پر بطور خاص روشنی ڈالی ہے اور ثابت کیا ہے کہ انسانیت کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے ان سزاؤں کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔[2]
4- صدر نکسن کے سابق سیاسی مشری ڈینس کلارک نے ایک مرتبہ صدر نکسن کو مشورہ دیا کہ امریکہ کو اسلام کے بارے میں اپنی رائے میں خوشگوار تبدیلی لانا ہوگی۔ صدر نکسن کے کہنے پر مسٹر ڈینس کو ہی یہ خوشگوار تبدیلی لانے کے لئے اسلام کا مطالعہ کرنا پڑا جس کے بعد ڈینس کلارک مسلمان ہوگئے۔[3]
5- سابق امریکی صدر جارج واشنگٹن کے پڑپوتے جارج اشفون کو صحافتی امور سرانجام دینے کے لئے بیروت ، مراکش ، اریٹریا، افغانستان اور بوسنیا جانا پڑا ، جہاں ان کی ملاقاتیں مسلمان ڈاکٹروں اور صحافیوں سے ہوئیں۔ اسلام کے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کے بعد جارج اشفون نے قرآن مجید کا مطالعہ شروع کردیا۔ مطالعہ کے بعد اس نے اعتراف کیا کہ ’’قرآن مجید پڑھنے کے بعد مجھے اپنے ان تمام سوالوں کا تسلی بخش جواب مل گیا ہے ، جن کے لئے میں برسوں پریشان تھا او رجن کے لئے مجھے انجیل اورا س کے عالموں نے مایوس کردیا تھا۔‘‘ چند دنوں بعد جارج اشفون مریکہ میں ہی ایک مسلمان کی وفات پر اس کی تجہیز و تکفین میں شرکت کے لئے گیا ، تجہیز وتکفین کے عمل سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ میت کے غسل کے دوران ہی اس نے کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے اسلام کا اعلان کردیا۔[4]
[1] روزنامہ نوائے وقت ، 13جولائی 1997ء
[2] روزنامہ جنگ ، 2اپریل 1992ء
[3] روزنامہ جنگ ، 28مئی 1996ء
[4] الدعوۃ ، الریاض ، ربیع الاول 1418ھ