کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 51
مکمل تھا ۔ اس سے مجھے یک گونہ آرام ملا اب مجھے بھیڑ میں کوئی پریشانی نہ تھی ۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں مردوں کے لئے غیر مرئی ہوگئی ہوں ۔ آنکھوں کے پردے سے قبل مجھے اس وقت بڑی پریشانی ہوتی تھی جب اتفاقیہ طور پر میری نظریں کسی مرد کی نظروں سے ٹکراتی تھیں ۔ اس نئے نقاب نے سیاہ عینک کی طرح مجھے اجنبیوں کی گھورتی نگاہوں سے محفوظ کردیا۔‘‘ قابل احترام جاپانی نو مسلمہ خاتون کے مذکورہ بالا خیالات میں جہاں مقلدین مغرب کے اعتراضات کے جواب موجود ہیں وہاں ان مسلم خواتین کے لئے درس نصیحت بھی ہے، جنہیں دوپٹے کا بوجھ اٹھانا بھی کسی بلائے جان سے کم نظر نہیں آتا۔[1] امر واقعہ یہ ہے کہ معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کا سرطان پھیلانے ، صنف مخالف کے اندر جنسی ہیجان برپا کرنے اور جذبات میں آگ لگانے کا سب سے بڑا سبب بے پردگی اور بے حجابی ہی ہے جبکہ حجاب نہ صرف مسلم معاشرے کے کلچر کا اہم ترین جزوہے بلکہ چوری چھپے آشنائیوں سے لے کر کھلے عام معاشقوں تک ہر فتنے کا موثر ترین سد باب بھی ہے لیکن افسوس وطن عزیز میں خواص سے لے کر عوام تک بے حجابی کا مرض اس قدر عام ہوچکا ہے کہ باحجاب خواتین اب ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔ اِلاَّ من شا ء اللہ ! 5 -غض بصر: معاشرے کو جنسی ہیجان اور انتشار سے پاک صاف رکھنے کے لئے حجاب ایک ظاہر ی تدبیر ہے جبکہ ’’غض بصر‘‘کا حکم ایک باطنی تدبیر ہے جس پر تمام مرد اور عورتیں اپنے اپنے ایمان اور تقویٰ کے مطابق عمل کرتے ہیں۔’’ غض ِبصر‘‘کا مطلب یہ ہے کہ مرد ، عورتوں سے اور عورتیں مردوں سے آنکھیں ملائیں نہ لڑائیں۔ ایک دوسرے کو تاڑیں نہ تانکیں نہ جھانکیں۔ کہا جاتا ہے آنکھیں شیطان کے تیروں
[1] یہاں ہم ایک پاکستانی خاتون شہناز لغاری کا ذکر بھی کرنا چاہیں گے جو 9برسوں سے پاکستان میں برقعہ پہن کر بطور کیپٹن پائلٹ اور انسٹرکٹر کام کررہی ہیں نیز’’ پاکستان ویمن پائلٹ ایسوسی ایشن ‘‘کی چیئر پرسن اور ’’انٹر نیشنل حجاب تحریک‘‘ کی سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے ایک روزنامہ کو انٹرویودیتے ہوئے بتایا ’’جب میں پانچویں جماعت میں تھی تو مجھے والدین نے پردہ کروانا شروع کروادیا ، لڑکیاں میرا مذاق اڑاتیں ، لیکن میں نے برقعہ ترک نہیں کیا۔ آج ساری دنیا کی لڑکیاں میرا حوالہ دیتی ہیں کہ اگر شہناز برقعہ پہن کر جہاز اڑا سکتی ہے تو ہم برقعہ پہن کر کوئی دوسرا کام کیوں نہیں کرسکتیں؟‘‘ شہناز نے مزید بتایا کہ ’’انہیں مختلف مسلم ممالک سے پرکشش آفر زہوچکی ہیں کہ میں ان ممالک میں برقعہ پہن کر جہاز اڑائوں۔‘‘ (نوائے وقت 27نومبر1997ء) مذکورہ مثال سے یہ اعتراض بھی ختم ہوجاتا ہے کہ حجاب ، خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔