کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 50
پردہ صرف ازواج مطہرات میں ہی نہیں بلکہ تمام صحابیات میں مکمل طور پررائج ہو چکا تھا۔
تہذیب مغرب کے دلدادہ حضرات نے چہرہ کے پردہ سے جان چھڑانے کے لئے قرآنی اور احادیث مبارکہ پربڑی بڑی لمبی بحثیں کی ہیں ۔ ہمارے نزدیک اصل مسئلہ دلائل کا نہیں بلکہ ایمان کا ہے، لہٰذا ہم علمی بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہاں ایک جاپانی نومسلمہ ’’خولہ لکاتا‘‘ جو کہ جاپان میں پیدا ہوئی ، فرانس میں تعلیم حاصل کی اور وہیں مسلمان ہوئی، مصر سعودی عرب کے مطالعاتی دورے کئے ، حجاب کے موضوع پراس کے شائع شدہ تاثرات کے بعض حصے من و عن نقل کررہے ہیں۔[1]
’’قبول ِ اسلام سے قبل میں چست پینٹ اور منی اسکرٹ پہنتی تھی لیکن اب میری لمبی پوشاک نے مجھے مسرور کردیا ۔مجھے یوں لگا جیسے میں ایک شہزادی ہوں، پہلی مرتبہ میں نے حجاب پہننے کے بعد اپنے آپ کو پاکیزہ اور محفوظ سمجھا ، مجھے احساس ہوا کہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے زیادہ قریب ہوگئی ہوں ، میرا حجاب صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی نہیں تھا بلکہ میرے عقیدے کا برملا اظہار بھی تھا۔ حجاب پہننے والی مسلمان عورت جم غفیر میں بھی قابل شناخت ہوتی ہے (کہ وہ مسلمان ہے) جبکہ غیر مسلم کا عقیدہ صرف الفاظ کے ذریعے ہی معلوم ہوسکتا ہے۔‘‘
’’منی اسکرٹ کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو میری ضرورت ہے تو مجھے لے جا سکتے ہیں، حجاب صاف طور پر بتاتا ہے کہ میں آپ کے لئے ممنوع ہوں۔‘‘
’’موسم گرما میں ہر شخص گرمی محسوس کرتا ہے لیکن میں نے حجاب کو اپنے سر اور گردن پر براہ راست پڑنے والی سورج کی کرنوں سے بچنے کا موثر ذریعہ پایا۔
’’پہلے پہلے مجھے حیرت ہوتی تھی کہ مسلم بہنیں برقعے کے اندر کیسے آسانی سے سانس لے سکتی ہیں ، اس کا انحصار عادت پر ہے جب عورت اس کی عادی ہوجاتی ہے تو کوئی دقت نہیں رہتی۔ پہلے بار میں نے نقاب لگایا تو مجھے بڑا اچھا لگا، انتہائی حیرت انگیز ، ایسا محسوس ہوا گویا میں ایک اہم شخصیت ہوں مجھے ایک ایسے شاہکار کی مالکہ ہونے کا احساس ہوا جو اپنی پوشیدہ مسرتوں سے لطف اندوز ہو میرے پاس ایک خزانہ تھا جس کے بارے میں کسی کومعلوم نہ تھا ، جسے اجنبیوں کو دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔‘‘
’’جب میں نے سردیوں کا برقعہ بنایا تو اس میں آنکھوں کا باریک نقاب بھی شامل کر لیا اب میرا پردہ
[1] تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ترجمان القرآن ، مارچ 1997ء