کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 48
مختلف احکام کے ذریعے کمال حسن تدبیر اور حکمت کے ساتھ نکاح کے مرحلے تک جنسی آلائشوں سے پاک اور صاف رکھنے کا اہتمام کرتا ہے۔ اس سلسلے میں دیئے گئے احکام درج ذیل ہیں: 1 محرم اور غیر محرم رشتوں کی تقسیم: مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولنے والا بچہ شعور کی عمر تک پہنچنے سے پہلے یہ جان چکا ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ گھر کے اندر رہنے والے تمام افراد مثلاً دادا ، دادی ، والدین اور بہن بھائی ایسے مقدس اور محترم رشتے ہیں جہاں صنفی جذبات کا تصور بھی گناہ ہے، والدین اور بہن بھائیوں کے بعد کچھ دوسرے اعزہ و اقارب جن سے زندگی میں بکثرت میل جول رہتا ہے اور کسی حد تک انسان ان کے ساتھ گھل مل کررہنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ مثلاً چچا، ماموں، پھوپھی ،خالہ وغیرہ ۔ ان کو بھی حرام رشتے [1]قرار دے کر شریعت نے ہر مرد و عورت کے گرد اعزہ و اقارب کا ایک ایسا حلقہ بنا دیا ہے جس میں انسان کے صنفی جذبات میں ہیجان پیدا ہونے کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔ حرام رشتوں کے اس حلقہ سے باہر غیر محرم رشتہ داروں یا اجنبیوں کے لئے جہاں صنفی جذبات میں ہیجان پیدا ہونے کے مواقع ہر آن موجود رہتے ہیں ، وہاں شریعت نے بعض دوسری تدابیر اختیار کی ہیں ، جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔ 2 ساتر لباس پہننے کا حکم: گھر کی عام چوبیس گھنٹے کی زندگی میں اسلام نے مردوں اور عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ایسا لباس استعمال کریں کہ جس سے ان کا ستر ظاہر نہ ہو ۔ یاد رہے کہ مرد کا ستر ناف سے لے کر گھنٹوں تک ہے ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’مرد کا ناف کے نیچے اور گھٹنے سے اوپر(کا حصہ) سب چھپانے کے لائق ہے۔ (دار قطنی) جبکہ عورتوں کا ستر ہاتھ پاؤں او رچہرے کے علاوہ سارا جسم ہے ۔ عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے ’’جب عورت بالغ ہوجائے تو ا س کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہئے، سوائے چہرے اور کلائی کے جوڑ تک ۔‘‘ (ابوداؤد) ساتر لباس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ لباس ایسا باریک ، تنگ یا مختصر نہ ہو جس سے ستر کے اعضاء ظاہر ہورہے ہوں۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’’ایسی عورتیں جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی رہتی ہیں ، جنت میں داخل نہ ہوں گی نہ ہی جنت کی خوشبو پائیں گی۔‘‘ (مسلم)
[1] حرام رشتوں کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ہذا کا باب ’’حرام رشتے۔‘‘