کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 47
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’’جب بچہ سات برس کا ہوجائے تو اسے نماز پڑھنے کا حکم دو ، دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھے تو اسے مار کر نماز پڑھاؤاور ان کے سونے کی جگہ (یعنی بستر یا کمرہ) الگ الگ کرو۔‘‘ (بخاری)غور فرمائیے ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ایک مختصر سے حکم میں بچہ کی تربیت کے کتنے اہم نکات شامل ہیں۔ نماز پڑھنے سے پہلے بچے کو رفع حاجت ، غسل اور وضوکی ابتدائی باتیں بتائی جائیں گی۔ کپڑوں کی پاکیزگی اور پاک جگہ کا تصور دیاجائے گا ، مسجد اور مصلی کا تعارف کروایا جائے گا ، امامت اور جماعت کی تعلیم دی جائے گی، ان ساری باتوں سے قدرتی طور پر بچے کے اندر صاف ستھری اورنظم و ضبط والی زندگی بسرکرنے کا شعور پیدا ہوگا۔ مذکورہ حدیث شریف کے آخری حصہ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ دس سال کی عمر میں بچوں کے بستر (یا ممکن ہو تو کمرے) الگ الگ کردو، ہر آدمی جانتا ہے کہ دوران نیند میں انسان کی کیفیات کیا ہوتی ہیں ،کمرے الگ کرنے میں حکمت یہ ہے کہ بچوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے فطری حیاکا جو جذبہ ودیعت فرمایا ہے وہ نہ صرف قائم و دائم رہے بلکہ مزید پروان چڑھے ۔ آرام کے اوقات میں نابالغ بچوں کو بھی اپنے والدین کے پاس اجازت لے کر آنے کا حکم دے کر اسلام نے عصمت و عفت اور شرم و حیا کاایک ایسا بلند معیار مقرر فرمادیا ہے جس کا کسی دوسرے مذہب میں تصور تک نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! ضروری ہے کہ تمہارے غلام اور نابالغ بچے تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آئیں 1 صبح کی نماز سے پہلے 2 دوپہر کو ، جب تم (آرام کے لئے ) کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو3 عشاء کی نماز کے بعد (جب تم سونے کے لئے بستر پر چلے جاؤ) ‘‘ (سورہ نور، آیت نمبر 59) بلوغت کی عمر سے پہلے یہ تمام احکام بچے کے اندر صنفی جذبات پیدا ہونے کے مواقع کم سے کم کردیتے ہیں اور بچہ قدرتی طورپر ایک پاکیزہ صاف ستھرے ماحول کا عادی بن جاتا ہے۔ 3۔تیسرا دور…بلوغت سے نکاح تک: بلوغت کی حدود میں داخل ہوتے ہی مرد عورت پر وہ تمام قوانین نافذ ہوجاتے ہیں جو اس سے پہلے نابالغ ہونے کی وجہ سے نافذ نہیں تھے۔ [1]بلوغت کے بعد مرد اور عورت میں صنفی جذبات بیدار ہونے لگتے ہیں ۔ صنف مخالف کے لئے قدرتی طور پر کشش کااحساس ہونے لگتا ہے ۔ اسلام ان جذبات کو بتدریج
[1] یاد رہے لڑکوں کے لئے بلوغت کی علامت احتلام ہے اورلڑکیوں کی بلوغت کی علامت حیض کی ابتداء ہے۔