کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 44
بیٹا(شوہر) ، بیوی (بہو) کو باہم اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کردیا گیا ہے کہ ان کے دنیاوی اور اخروی معاملات ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن ہی نہیں۔ بیٹا اپنے والدین کی خدمت کرنے کا پابند ہے ، بیوی اپنے شوہر کی خدمت کرنے کی پابند ہے ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بیٹا تو دن رات والدین کی خدمت پر کمربستہ رہے اور بیوی ’’شرعاً سسرال کی خدمت واجب نہیں ‘‘ کے فتوے کی چادر اوڑھ کر مزے کی نیند کرتی رہے؟ اگر یہ فرض کر لیاجائے کہ چونکہ شریعت اسلامیہ میں سسر اور ساس کے الگ حقوق کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا ، لہٰذا بہو پر سسر اور ساس کی خدمت کرنا واجب نہیں تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ فلسفہ خاندان کو برباد کرنے میں کتنا اہم کردار ادا کرے گا۔اس کا سب سے پہلا ردِّعمل یہ ہوگا کہ شوہر اپنے سسر ساس (یعنی بیوی کے والدین) کو نظر انداز کرے گا اور بالآخر دونوں گھروں میں باہمی محبت ، مؤدت ،رافت، رحمت، عزت اور احترام کی بجائے گستاخی ، ناگواری ، بے ادبی ، بیزاری اور نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ اس سے نہ صرف بزرگوں کی زندگی تلخ ہوگی بلکہ خود میاں بیوی کے درمیان ایک مستقل جھگڑے کی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ یہ فلسفہ مغربی طرز معاشرت میں تو قابل عمل ہوسکتا ہے ، جہاں اولاد کو اولاً اپنے ماں باپ کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ ثانیاً اگر علم ہو بھی تو بیٹا بھی اپنے والدین سے اسی قدر لا تعلق ہوتا ہے جس قدر بہو، لیکن اسلامی طرز معاشرت میں اس فلسفہ کے قابل عمل ہونے کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اسلام کا نظام تربیت: افراد کے مجموعے کا نام معاشرہ ہے اور فرد معاشرے کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسلام معاشرے کی اصلاح کا آغاز فرد سے کرتا ہے تاکہ صالح اور نیک سیرت افراد تیار ہو کر ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ فرد کی اصلاح کے لئے اسلام کے نظام تربیت کو سمجھنے کے لئے انسانی زندگی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 1 پہلا دور … قرار حمل سے لے کر پیدائش تک 2 دوسرا دور … پیدائش سے لے کر بلوغت تک 3 تیسرا دور … بلوغت سے لے کر نکاح تک 4 چوتھا دور … نکاح کے بعد تادم ِ آخر