کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 42
5 سسر اور ساس کے حقوق: ہمارے ملک کی نوے فیصد آبادی(یا اس سے بھی زائد ) ان گھرانوں پر مشتمل ہے جو شادی کے فوراً بعد اپنے بیٹے اور بہو کو الگ گھر بنا کر دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ کچھ نہ کچھ عرصہ اور بعض صورتوں میں طویل عرصہ تک بہو بیٹے کو اپنے سسرال (یا والدین) کے ہاں رہ کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی مثالیں بھی ہمارے معاشرے میں عام ہیں کہ بیٹے کی شادی محض اس مقصد کے لئے کی جاتی ہے کہ گھر میں بوڑھے والدین کی خدمت کرنے والا کوئی دوسرا فرد موجود نہیں، بہو کی صورت میں گھر کو ایک سہارا مل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال پہلے تک اگلی وضع قطع کے بزرگ لوگ اپنے بچوں کے رشتے طے کرتے وقت قرابت داری اور رشتہ داری کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ عموماً خالہ ، پھوپھی ، چچا ، ماموں وغیرہ اپنی اولادوں کو باہمی مناکحت کی لڑی میں پرونے کی کوشش کرتے ، ماں باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت نصیحت کرتے ’’بیٹی ! جس گھر میں تمہاری ڈولی جارہی ہے ، اسی گھر سے تمہارا جنازہ اٹھنا چاہئے۔‘‘ مطلب یہ ہوتا کہ اب عمر بھر کے لئے تمہارا جینا مرنا ، دکھ سکھ، خوشی اور غمی اسی گھرکے ساتھ وابستہ ہے ۔اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلتا کہ بہو اپنے شوہر کے والدین کو اپنے ماں باپ جیسا احترام دیتی اور ان کی خدمت میں کوئی عار محسوس نہ کرتی اور یوں ساس بہو کی روایتی نوک جھونک کے باوجود لوگ پُر سکون اور مطمئن زندگی بسر کرتے تھے۔ جب سے تہذیب مغرب کی تقلید کا ذوق وشوق عام ہوا ہے تب سے ایک نئی سوچ نے جنم لینا شروع کیا ہے ، وہ یہ کہ شرعاًعورت پر سسرال کی خدمت واجب نہیں نیز یہ کہ شوہر کے لئے کھانا پکانا ، کپڑے دھونااور دیگر گھریلو کام کرنا بھی بیوی پر واجب نہیں ، نہ ہی شوہر ان باتوں کا مطالبہ کر سکتا ہے۔کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ آئیے نقلی اور عقلی دلائل کی روشنی میں جائزہ لیں کہ یہ ’’فتویٰ‘‘ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا شریعت کے نام پر تہذیب مغرب کی تقلید کا شوق فراواں؟ جہاں تک شوہر کی خدمت کا تعلق ہے ۔ اس بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اس قدر واضح اور کثیر تعداد میں ہیں کہ اس پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم یہاں صرف تین احادیث اختصار کے ساتھ نقل کررہے ہیں: 1 شوہر ، بیوی کی جنت اور جہنم ہے ۔ (احمد، طبرانی ، حاکم اور بیہقی)