کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 41
تو اس کی عزت اور وقار میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے اور جب پوتے دوھتے ہوجاتے ہیں تو وہ صحیح معنوں میں ایک مملکت کی ’’ملکہ‘‘ بن جاتی ہے ۔ ایک طرف اپنے شوہر کی نگاہوں میں اس کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے تو دوسری طرف چالیس یا پچاس سالہ بیٹا بھی اپنی امی جان کے سامنے بولنے کی جرأت نہیں کر پاتا ۔ گھر کے بڑے بڑے معاملات کے فیصلے مصلّے پر بیٹھی ’’بڑی امی‘‘ کے اشارہ ابرو سے طے ہوجاتے ہیں ۔ نواسے ، پوتے ہر وقت خدمت گاروں کی طرح دادی امی اور نانی امی کی دلجوئی پر کمربستہ رہتے ہیں کہیں بڑی امی ناراض نہ ہوجائیں اور بڑی امی بھی اپنے گلشن کے پھولوں اور کلیوں کو دیکھ دیکھ کر صدقے اور واری جاتی ہیں کہ ان کی زندگی بے مقصد اور بے عبث نہیں تھی۔ فطرت کی عطا کردہ ذمہ داریوں کو انہوں نے پورا کیا اپنے سامنے زندگی کا تسلسل دیکھ کر بڑی امی کے چہرہ پرطمانیت اور سکون کا نور برسنے لگتا ہے۔ کاش ! حقوق نسواں کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کو اسلام کی طرف سے عورت کو عطا کئے گئے اس مقام و مرتبہ کے بارے میں سوچنے کی فرصت نصیب ہو؟[1] ہم نہ تو یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں ، مرد پر تین گنا برتری عطا فرمائی ہے نہ یہ لکھنے میں کوئی تامل ہے کہ اسلام نے مرد کو عورت پر آٹھ امور پر اس کے طبعی اوصاف کی بناء پر برتری عطا فرمائی ہے ۔ جہاں تک ان حضرات کا تعلق ہے ، جنہیں اسلام کے حوالے سے ہر قیمت پر عورت کو مرد کے مساوی ثابت کرنے کا مرض لاحق ہے ان سے ہم یہ دریافت کرناچاہتے ہیں کہ آخر دنیا کے کون سے مذہب اور کون سے قانون میں عورت کو عملاً مرد کے مساوی حقوق حاصل ہیں؟ اگر ایسا نہیں (اور واقعی نہیں) تو پھر ہم ان سے یہ گزارش کریں گے کہ دنیا کے دیگر مذاہب کی طرح اگر اسلام نے بھی عورت کو مرد کے مساوی درجہ نہیں دیا تو اس میں ندامت یا خفت کی آخر بات ہی کیا ہے۔ مرد اور عورت کے حقوق کے بارے میں اسلام کی تقسیم دیگر تمام مذاہب کے مقابلے میں کہیں زیادہ عدل اور اعتدال پر مبنی ہے۔ اسلام نے آج سے چودہ سو سال قبل عورت کو جو حقوق از خود عنایت فرمادیئے ہیں دیگر مذاہب اور قوانین ہزار کوششوں کے باوجود وہ حقوق آج بھی عورت کو دینے کے لئے تیار نہیں۔
[1] لمحہ بھرکے لئے مغرب کی چمک دمک سے بھرپور طرز معاشرت میں شب و روز بسر کرنے والی عورت کا تصور کیجئے جو نکاح کو مردکی غلامی تصور کرتی ہے ، بے نکاح رہ کر جوانی کا پر کشش عرصہ رونق محفل بنتی ہے۔ آج یہاں کل وہاں ، جب جوانی ڈھلنے لگتی ہے تو نسوانی کشش بھی ماند پڑ جاتی ہے، محفلیں سونی سونی دکھائی دینے لگتی ہیں ۔ اچانک اسے محسوس ہوتا ہے کہ رونق ماضی تو فقط ایک سراب یا خواب تھا ۔ دائیں ، بائیں ، آگے پیچھے کوئی ہمدرد ہے نہ غمگسار۔ زندگی کے وسیع صحرا میں خزاں رسیدہ درخت تنہا تنہا۔ تب بڑھاپا گزارنے کے لئے اسے کسی بلی یا کتے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔