کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 40
عورت کو ، مرد کو اس کی ذمہ داریوں اور طبعی اوصاف کی بناء پر اس بات کا زیادہ مستحق سمجھا گیا ہے کہ طلاق کا حق صرف اسی کو دیا جائے البتہ حسب ضرورت عورت کو شریعت نے خلع کا حق دیا ہے۔
ح-نبوت ، جہاد، امامت کبریٰ ، امامت صغریٰ وغیرہ:
کار نبوت ، جہاد بالسیف اور ملکی قیادت و سیادت (امامت کبریٰ) تینوں کام زبردست مشکلات ، مصائب اور ابتلا و آزمائش کے متقاضی ہیں جس کے لئے زبردست قوت، جرأت ، استقامت اور آہنی اعصاب کی ضرورت ہے ، چنانچہ شریعت نے یہ تینوں کام صرف مردوں کے ذمہ لگائے ہیں ، عورتوں کو ان سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ حتی کہ نماز میں مردوں کی امامت (امامت صغریٰ) سے بھی عورتوں کو مستثنیٰ قراردیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا آٹھ امور میں اسلام نے مرد کو عورت پر برتری (نیکی اور تقویٰ کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس کی قدرتی صلاحیتوں اور طبعی اوصاف کے اعتبارسے) عطا فرمائی ہے۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے مرد کے مقابلے میں عورت کو جس معاملے میں فضیلت عطا فرمائی ہے اس کا تذکرہ بھی یہاں کردیاجائے ، جو کہ درج ذیل ہے۔
4 عورت بحیثیت ماں :
ایک صحابی حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’تیری ماں ۔‘‘ اس نے دوبارہ عرض کیا ’’پھرکون ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’تیری ماں ۔‘‘ اس نے تیسری مرتبہ عرض کیا’’پھرکون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہ بارارشاد فرمایا ’’تیری ماں ۔‘‘ اس نے چوتھی بار عرض کیا ’’پھر کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’تیرا باپ۔‘‘ (بخاری)
خاندانی نظام میں عورت کو مرد پر تین درجہ کی یہ فضیلت ، اسلام کا عطا کردہ وہ باعزت اور باوقار مقام ہے کہ دنیابھر کی ’’حقوق نسواں ‘‘ کی تنظیمیں صدیوں جدوجہد کرتی رہیں تب بھی انہیں دنیا کا کوئی ملک ، کوئی مذہب اور کوئی قانون یہ مقام دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا ۔ مسلمان گھرانے میں عورت نکاح کے بندھن میں بندھ کر اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتی ہے تو اسے مرد کا مضبوط سہار ا میسر آجاتا ہے ، اس کی اولاد ہوتی ہے