کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 38
ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ (11:4)﴾ ’’مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے۔ ‘‘ (سورہ نساء ، آیت نمبر11) د۔یادداشت اور نمازوں میں کمی: ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :’’عورتو! صدقہ کیا کرو اور استغفار کیا کرو میں نے جہنم میں (مردوں کی نسبت) عورتوں کو زیادہ دیکھا ہے۔‘‘ ایک عورت نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’تم لعنت زیادہ بھیجتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، ناقص العقل اور ناقص الدین ہونے کے باوجود مردوں کی مت مار دیتی ہو۔‘‘ اس عورت نے پھر عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عورت کی عقل اور اس کے دین میں کمی کس لحاظ سے ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اس کی عقل (یادداشت) میں کمی کا ثبوت تو یہی ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے اور دین میں کمی (کاثبوت) یہ ہے کہ (ہرماہ) تم چند دن نماز نہیں پڑھ سکتیں اور رمضان میں (چند دن) روزے بھی نہیں رکھ سکتیں۔‘‘ (صحیح مسلم ، کتا ب الزکاۃ ، باب الترغیب فی الصدقۃ) حدیث شریف میں عورتوں کی عقل (یعنی یادداشت) اور دین میں کمی کی جو دلیل دی گئی ہے اس سے کسی کو مجال انکار نہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ خالق کائنات نے قرآن مجید میں جابجا انسان کی فطری کمزوریوں کا ذکر فرمایا ہے مثلاً ﴿ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ﴾ ’’انسان بڑا ہی ظالم اور ناشکرا ہے۔‘‘ (سورہ ابراہیم ، آیت نمبر34) ﴿ کَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلاً﴾ ’’انسان بڑا جلد باز ہے۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل ، آیت نمبر11) ﴿ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا﴾ ’’انسان تھڑ دلا پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ (سورہ معارج ، آیت نمبر 19) ﴿ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلاً﴾ ’’بے شک انسان بڑا ظالم او رجاہل ہے۔‘‘ (سورہ احزاب ، آیت نمبر72) ان آیتوں میں انسان کا استخفاف یا استحقار مطلوب نہیں بلکہ اس کی فطری کمزوریوں کا بیان مقصود ہے ۔ اسی طرح عورت کے بھولنے کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے استخفاف کے لئے نہیں کیا بلکہ اس کی فطری کمزوری بتلانے کے لئے کیا ہے۔ مذکورہ حدیث سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ عورت کو مجموعی طور پر تمام پہلوؤں سے ناقص