کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 37
ب-قتل خطاء میں نصف دیت:
کارگہ حیات میں اسلام مرد کی ذمہ داریوں کو عورت کی ذمہ داریوں کی نسبت زیادہ اہم سمجھتا ہے ۔ خاندان کا مالی بوجھ برداشت کرنا ، بیوی بچوں کو سماجی مفسدات سے تحفظ مہیا کرنا ، معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا ، اس مقصد کے لئے آزمائشیں اور تکلیفیں برداشت کرنا حتی کہ جان کی بازی تک لگا دینا ملک اور قوم کا دشمنوں سے تحفظ کرنا وغیرہ یہ سارے کا م شریعت نے مردوں کے ذمہ ہی لگائے ہیں ۔ ذمہ داریوں کے اسی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے شریعت نے مرد اور عورت کی قدر (Value)میں بھی فرق رکھا ہے ، لہٰذا قتل خطا میں عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف رکھی گئی ہے۔ یاد رہے کہ قتل عمد میں مرداور عورت کی دیت برابر ہے لیکن دیت کے نصف ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بحیثیت انسانی جان کے دونوں میں فرق ہے ، بحیثیت انسانی جان کے اسلام نے دونوں میں کوئی فرق نہیں رکھا (اس کی وضاحت ہم گزشتہ صفحات میں کر آئے ہیں) دیت کے فرق کو ہم اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ دو فوجوں کے درمیان ہونے والی جنگ کے آخر میں فریقین جب قیدیوں کا تبادلہ کرتے ہیں تو سپاہی کے بدلے میں سپاہی کا تبادلہ ہوتا ہے لیکن جرنیل کے بدلے میں سپاہی کا تبادلہ کبھی نہیں ہوتا حالانکہ بحیثیت انسانی جان کے ایک سپاہی اور جرنیل برابر ہیں لیکن میدان جنگ میں دونوں کی قدر (Value)ایک جیسی نہیں، لہٰذا ایک جرنیل کا تبادلہ بعض اوقات کئی صد یا کئی ہزار سپاہیوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ یہی فرق شریعت میں مرد اور عورت کے دائرہ کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کیا گیا ہے جو سراسر عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
ج-وراثت:
شریعت نے عورت کوہر حال میں مالی تحفظ مہیا کیا ہے اگر وہ بیوی ہے تو اس کا سارا خرچ شوہر کے ذمہ ہے ، ماں ہے تو بیٹے کے ذمہ ہے ، بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ہے ، بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ ہے ، بیوی ہوتے ہوئے وہ نہ صرف ’’مہر‘‘ کی حق دار ہے بلکہ اگر کوئی عورت جاگیرکی مالک ہو اور شوہر فاقہ کش ، تب بھی شرعاً بیوی گھر پر ایک پیسہ تک خرچ کرنے کی پابند نہیں، مرد کی ان ذمہ داریوں اور عورت کے ان حقوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام نے عورت کو وراثت میں مرد کے مقابلے میں نصف حصہ دیا