کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 36
تفویض ہی نہیں کی ۔[1] طبعی اوصاف کے اعتبار سے مرد کو اللہ تعالیٰ نے حاکمیت ، قیادت ، سیادت ، مزاحمت ، مشقت ، جنگجوئی اور خطرات کو انگیخت کرنے جیسی صفات سے متصف کیا ہے جبکہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے ایثار، قربانی، خلوص ، بے پناہ قوت برداشت ، لچک ، نرمی ، حسن ، دلکشی اور دل لبھانے کی صفات سے متصف کیا ہے۔ مرد اور عورت کی جسمانی ساخت اوردونوں کو الگ الگ ودیعت کی گئی صفات ،کیا اس بات کا واضح ثبوت نہیں کہ عورت کا دائرہ کار گھر کے اندر بنی نوع انسان کی بقاء ، بچوں کی پرورش ، تربیت ، خانہ داری اور گھر کے دیگر امور کی دیکھ بھال پر مشتمل ہے جبکہ مرد کا دائرہ کار اپنے بیوی بچوں کے لئے روزی کمانا ، اپنے خاندان کو معاشرے کے مفسدات سے تحفظ مہیا کرنا ، ملکی معاملات میں حصہ لینا اور ایسے ہی دیگر امور پر مشتمل ہے۔ مرد اور عورت کے فطری دائرہ کار کا تعین کرنے کے بعد اسلام دونوں کے حقوق کا تعین بھی کرتا ہے۔ چنانچہ گھر کے نظم میں مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام کا درجہ عطا فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ (34:4)﴾ ’’مرد، عورتوں پر قوام ہیں اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ نساء ، آیت نمبر 34) جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کو اللہ تعالیٰ نے اس کے طبعی اوصاف کی بناء پر گھر کا محافظ اور نگران بنایا ہے جبکہ عورت کو اس کے طبعی اوصاف کی بناء پر مرد کی حفاظت اور نگہبانی کا محتاج بنایا ہے۔ مرد کو خاندان کا محافظ یا سربراہ مقرر کرنے کے بعد اس پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے نان نفقہ کا بوجھ اٹھائے ، ان کی تمام ضرورتیں پوری کرے ، ان کے ساتھ نیکی اور احسان کا سلوک کرے جبکہ عورت پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ مرد کی خدمت خاطر میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔اس کے مال اور عزت کی حفاظت کرے اور ہر جائز کام میں اس کی اطاعت کرے۔
[1] نوع انسانی کی بقاء میں عورت کی اس عظیم خدمت کے پیش نظر اسلام نے عورت کو جہاد جیسی عظیم عبادت سے مستثنیٰ قرار دے کر حج کو عورت کے لئے جہاد کا درجہ عطافرمادیا ہے۔