کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 35
عورت نے عرض کیا ’’ہاں ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شوہر کو حکم دیا کہ اس سے اپنا مہر واپس لے لو اسے الگ کردو۔‘‘ (بخاری)
مذکورہ بالا سات امور میں اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق عطافرمائے ہیں، جن امور میں عورتوں کو مردوں کے غیر مساوری (یعنی کم) حقوق دیئے ہیں، وہ یہ ہیں:
ا-خاندان کی سربراہی:
اسلام ،مرداور عورت دونوں کی جسمانی ساخت اور فطری صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے دونوں کے دائرہ کار کا تعین کرتا ہے۔ اسلام کا موقف یہ ہے کہ مرد اور عورت اپنی اپنی جسمانی ساخت اور طبعی اوصاف کی بنیاد پر الگ الگ مقصد کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں۔ جسمانی ساخت کے اعتبار سے بلوغت کے بعد مردوں کے اندر کوئی جسمانی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ،سوائے اس کے کہ چہرے پر داڑھی اور مونچھ کے بال ظاہر ہونے لگتے ہیں اور ان کے اندر جنسی جذبات بیدار ہونے لگتے ہیں جبکہ عورت کے اندر بلوغت کے بعد جنسی بیداری کے علاوہ بڑی نمایاں تبدیلی یہ واقع ہوتی ہے کہ عورت کو ہر ماہ حیض کا خون آنے لگتا ہے جس سے اس کے جسمانی نظام میں کچھ تبدیلیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ عورت کا نظام تنفس ، نظام ہضم ، نظام عضلات، گردش خون، ذہنی و جسمانی صلاحیتیں گویا پورا جسم اس سے متاثر ہوتا ہے۔ بالغ مرد وخواتین اچھی طرح جانتے ہیں کہ عورت کو قدرت ہر ماہ اس تکلیف دہ صورت حال سے محض اس لئے دوچارکرتی ہے کہ اسے نوع انسانی کی بقاء جیسے عظیم مقصد کے لئے تیار کیا جاتا ہے ، عورت کا بلوغت کے بعد ہر ماہ ہفتہ عشرہ اس تکلیف دہ صورت حال سے دوچار رہنا ، پھر زمانہ حمل میں سختیوں پر سختیاں برداشت کرنا، وضع حمل کے بعد متعددجسمانی بیماریوں کے باعث نیم جانی کی کیفیت سے دوچار ہونا ، اس کے بعد حالت ضعف میں دو سال تک اپنے جسم کا خون نچوڑ کر بچے کی رضاعت کا بوجھ اٹھانا او رپھر ایک طویل مدت تک راتوں کی نیند حرام کرکے بچے کی پرورش ، نگہداشت اور تربیت کی ذمہ داریاں پوری کرنا، کیا یہ سارے محنت اورمشقت طلب کام عورت کو واقعی اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ گھر کی چار دیواری سے باہر نکلے اور اس مرد کے دوش بدوش زندگی کی دوڑ میں حصہ لے جسے نوع انسانی کی بقاء میں قدرت نے سوائے تخم ریزی کرنے اورنان و نفقہ ادا کرنے کے کوئی ذمہ داری