کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 34
تحفظ عطا کیا ہے۔ اگر عورت کسی جائیداد کی مالک ہے توکسی دوسرے کو اس میں تصرف کا کوئی حق نہیں۔ مثلاً ’’مہر ‘‘عورت کی ملکیت ہے جس میں اس کے باپ ، بھائی حتی کہ بیٹے یا شوہر کوبھی تصرف کا حق نہیں۔ اسلام نے جس طرح مردوں کے لئے وراثت کے حصے مقررکئے ہیں ویسے ہی عورتوں کے لئے بھی مقرر کئے ہیں۔ اسلام نے عورت کے حق ملکیت کو اس قدر تحفظ دیا ہے کہ عورت خواہ کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو اور شوہر کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو، بیوی کا نان نفقہ بہرحال مرد ہی کے ذمہ ہے۔ عورت اپنی ملکیت میں سے اگر ایک پیسہ بھی گھر پر خرچ نہ کرے تو شریعت کی طرف سے اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یہاں یہ مسئلہ واضح کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عورت سے خود کہہ کر ’’مہر‘‘ معاف کروانا جائزنہیں اگر کوئی خاتون اپنی مرضی سے برضا و رغبت معاف کردے تو جائز ہے ورنہ طے شدہ حق مہر ادا کرنا اسی طرح واجب ہے جس طرح کسی کا قرض ادا کرنا واجب ہوتا ہے ،جو لوگ محض اس نیت سے لاکھوں کا مہر مقرر کرلیتے ہیں کہ عورت سے معاف کروالیں گے وہ صریحاً گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
و-شوہر کا انتخاب :
جس طرح مرد کو اسلام نے اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے جس بھی مسلمان عورت سے نکاح کرنا چاہے کر سکتا ہے ، اسی طرح عورت کو بھی اسلام اس بات کا پورا پورا حق دیتا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے شوہر کا انتخاب کرلے، لیکن کم عمری اور ناتجربہ کاری کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے شریعت نے نکاح میں ولی کی رضامندی کو بھی ضروری قرار دیا ہے جس کی وضاحت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔
ز-حق خلع :
جس طرح شریعت نے مرد کو ناپسندیدہ عورت سے علیحدگی کے لئے طلاق کا حق دیا ہے ، اسی طرح عورت کو ناپسندیدہ مرد سے الگ ہونے کے لئے خلع کا حق دیا ہے جسے عورت باہمی افہام و تفہیم یا عدالت کے ذریعے حاصل کر سکتی ہے۔ [1]ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہرکی شکایت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ’’کیا تم مہر میں دیا گیا باغ واپس کرسکتی ہو؟‘‘
[1] خلع کے مفصل مسائل کتاب ہذا کے باب ’’خلع کے مسائل‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔