کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 30
کریں اور اپنے والدین کی عزت و آبرو اور سکون کو غارت نہ کریں۔[1]
3 مساوات مرد و زن
مغرب میں مساوات مردوزن کا مطلب یہ ہے کہ عورت ہر جگہ مرد کے دوش بدوش کھڑی نظر آئے۔ دفتر ہو یا دکان ، فیکٹری ہو یا کارخانہ ، ہوٹل ہو یاکلب ، پارک ہو یا تفریح گاہ ، ناچ گھر ہو یا پلے گراؤنڈ ، مساوات مردو زن یا آزادی نسواں یا حقوق نسواں کا یہ فلسفہ تراشنے کی اصل ضرورت عورت کو نہیں بلکہ مرد کو پیش آئی جس کے سامنے دو ہی مقصد تھے ۔
اولاً : صنعتی انقلاب کے لئے فیکٹریوں اور کارخانوں کی پیداوار میں اضافہ ۔
ثانیاً : جنسی لذت کا حصول۔
دوسرے لفظوں میں مغرب میں تحریک آزادی نسواں کا اصل محرک دو ہی چیزیں ہیں ’’شکم اور شرمگاہ۔‘‘امر واقعہ یہ ہے کہ مغرب کے انسان کی ساری زندگی انہی دو چیزوں کے گرد گھوم رہی ہے ۔ [2] اس فلسفہ حیات نے بنی نوع انسان کو کیا دیا ۔ اس پر ہم سیر حاصل بحث کر آئے ہیں۔ یہاں ہم ’’مساوات مردو زن‘‘ کے بارے میں اسلامی نظریہ حیات واضح کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام نے مرداور عورت کی ذہنی اور جسمانی ساخت اور طبعی اوصاف کو پیش نظر رکھتے ہوئے دونوں کے الگ الگ حقوق اور فرائض مقررکئے ہیں۔ بعض امور میں دونوں کومساوری درجہ دیا گیا ہے، بعض میں کم او ربعض میں زیادہ۔ جن امور میں مساوی درجہ دیا گیا ہے ، وہ درج ذیل ہیں:
ا- عزت اور آبرو کی حرمت :
اسلام میں عزت اور آبرو کے تحفظ کے لئے جو احکام مردوں کے لئے ہیں وہی احکام عورتوں کے لئے ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں مردوں کو یہ حکم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائیں وہیں عورتوں کو بھی یہ حکم ہے کہ وہ ایک دوسری کا مذاق نہ اڑائیں۔ مردوں اور عورتوں کو مشترک حکم دیا گیا ہے ’’ایک
[1] رونامہ جنگ ، لاہور 28مارچ 1995ء
[2] قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے ہمہ تن شکم اور ہمہ تن شرمگاہ کا فلسفہ حیات رکھنے والے انسان کو کتے سے تشبیہ دی ہے۔ جس کی جبلت میں دو ہی چیزیں رکھی گئی ہیں یا تو وہ ہر جگہ اٹھتے ، بیٹھتے ، چلتے ، پھرتے ، کھانے ، پینے کی چیزیں سونگھتا پھرتا ہے ، اس سے فرصت ملے تو پھر شرمگاہ کو چاٹنے اور سونگھنے میں مگن رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے دنیا میں کوئی تیسرا کام نہیں۔ (ملاحظہ ہو سورہ اعراف، آیت نمبر176)