کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 29
نیک حاکم مجاز ولی بن کر عورت کا نکاح کرسکتا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
’’جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کاولی حاکم ہے۔‘‘ (ترمذی)
ثانیاً : اسلام نے جہاں عورت کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے سے روک دیا ہے وہاں ولی کو بھی عورت کی مرضی کے بغیر نکاح کرنے سے روک دیا ہے۔
ایک کنواری لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’اس کے باپ نے اس کا نکاح کردیا ہے جسے وہ ناپسند کرتی ہے۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا کہ چاہے تو نکاح باقی رکھے چاہے تو ختم کردے۔ (ابوداؤد، نسائی ، ابن ماجہ) اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح میں ولی اور عورت دونوں کی رضامندی لازم و ملزوم ہے۔ اگر کسی وجہ سے دونوں کی رائے میں اختلاف ہو تو ولی کو چاہئے کہ وہ عورت کو زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرکے اسے رائے بدلنے پر آمادہ کرے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر ولی کو عورت کا نکاح کسی ایسی جگہ کرناچاہئے جہاں لڑکی بھی راضی ہو۔
نکاح میں ولی اور عورت دونوں کی رضامندی کو لازم و ملزوم قرار دے کر شریعت اسلامیہ نے ایک ایسا متوازن اورمعتدل راستہ اختیار کیا ہے جس میں کسی بھی فریق کے نہ تو حقوق پامال ہوتے ہیں نہ ہی کسی فریق کا استحقار یا استخفاف پایا جاتا ہے۔
قرآن و حدیث کے ان احکام کے بعد آخر اس بات کی کتنی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ لڑکی اور لڑکا والدین سے بغاوت کریں۔ جوش ِ جوانی میں فرار ہو کر عدالت میں پہنچنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کی قربت سے لطف اندوز ہوتے رہیں اور پھر اچانک عدالت میں پہنچ کر نکاح کا ڈرامہ رچائیں اور قانونی میاں بیوی ہونے کا دعویٰ کریں؟ اگر ولی کے بغیر اسلام میں نکاح جائز ہے تو پھر اسلامی طرز معاشرت اور مغربی طرز معاشرت میں فرق ہی کیا رہ جاتا ہے؟ مغرب میں عورت کی یہی تو وہ ’’آزادی‘‘ہے جس کے تباہ کن نتائج پر خود مغرب کا سنجیدہ طبقہ پریشان اور مضطرب ہے۔ 1995ء میں امریکی خاتون اول ہیلری کلنٹن پاکستان کے دورے پر آئیں تو اسلام آباد کالج فار گرلز کی طالبات سے گفتگو کرتے ہوئے بڑے حسرت آمیز لہجہ میں ان خیالات کا اظہار کیا کہ امریکہ میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں بغیر شادی کے طالبات اور لڑکیاں حاملہ بن جاتی ہیں ۔ اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ، خواہ عیسائی ہوں یا مسلم اپنے مذہب اور معاشرتی اقدار سے بغاوت نہ کریں بلکہ مذہبی و سماجی روایات اور اصولوں کے مطابق شادی