کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 28
آدھ دن کہیں روپوش رہنے کے بعد اچانک لڑکا اور لڑکی عدالت میں پہنچ جاتے ہیں ، ایجاب و قبول ہوتا ہے اور عدالت اس فتوے کے ساتھ کہ ’’ولی کے بغیر نکاح جائز ہے۔‘‘ نکاح کی ڈگریاں عطا فرمادیتی ہے۔ والدین بے چارے ذلت اور رسوائی کا داغ دل پر لئے عمر بھر کے لئے منہ چھپائے پھرتے ہیں ۔ اس قسم کے عدالتی نکاح کو ’’کورٹ میرج‘‘ کہاجاتا ہے۔ یہ طرز عمل نہ صرف اسلامی تعلیمات بلکہ مشرقی روایات سے بھی سراسر بغاوت ہے جس کا مقصد فقط یہ ہے کہ ایسے نکاحوں کو اسلامی سند جواز مہیا ہوجائے تاکہ مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب کو ملک کے اندر مسلط کرنے میں آسانی پیدا ہوجائے۔ نکاح کے وقت ولی کی موجودگی ، اس کی رضامندی اور اجازت کے بارے میں قرآن و حدیث کے احکام بڑے واضح ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں عورتوں کے نکاح کا حکم آیا ہے ، وہاں براہ راست عورتوں کو خطاب کرنے کی بجائے ان کے ولیوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’مسلمان عورتوں کے نکاح مشرکوں سے نہ کرویہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔‘‘[1] (سورہ بقرہ آیت نمبر221) جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عورت از خود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ ان کے ولیوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں کے ساتھ نکاح نہ کریں ۔ ولی کی رضامندی اور اجازت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث بھی ملاحظہ ہوں ، ارشاد مبارک ہے : 1 ’’جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا ، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ (احمد ، ابوداؤد، ترمذی ، ابن ماجہ) ابن ماجہ کی روایت کردہ ایک حدیث میں تو الفاظ اس قدر سخت ہیں کہ اللہ اور ا س کے رسول پر سچا ایمان رکھنے والی کوئی بھی مومنہ عورت ، ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کا تصور تک نہیں کر سکتی۔ ارشاد مبارک ہے : 2 اپنا نکاح خود کرنے والی تو صرف زانیہ ہے۔‘‘ یہاں ضمنی طور پر دو باتیں قابل وضاحت ہیں ۔ اولاً : اگر کسی عورت کا ولی واقعی ظالم ہو اور وہ عورت کے مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دے رہا ہو تو شرعاً ایسے ولی کی ولایت از خود ختم ہوجاتی ہے اور کوئی دوسرا اقرب رشتہ دار عورت کا ولی قرار پاتا ہے۔ اگر خدانخواستہ پورے خاندان میں کوئی بھی خیرخواہ اور نیک آدمی ولی بننے کا مستحق نہ ہو تو پھر اس گاؤں یا شہر کا
[1] بعض دوسری آیت یہ ہیں :435:2 ، 32:24