کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 27
ہیں ، عورت انہیں پورا کرے اور دونوں میان بیوی اس معاملہ میں حدود اللہ سے تجاوز نہ کریں۔
خطبہ نکاح گویا پوری زندگی کا ایک دستور ہے جو نئے خاندان کی بنیاد رکھتے ہوئے ارکان خاندان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔ خطبہ نکاح صرف دُلہا اور دُلہن کو ہی نہیں بلکہ تقریب ِ نکاح میں شریک سارے اہل ایمان کو مخاطب کرکے تقریب نکاح کو محض ایک عیش و طرب کی مجلس ہی نہیں رہنے دیتا بلکہ اسے ایک انتہائی پروقار اور سنجیدہ عبادت کا درجہ دے دیتا ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ
اولاً : دولہا دُلہن سمیت حاضرین مجلس میں سے خطبہ نکاح کے مطالب و معانی کو سمجھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔
ثانیاً : نکاح خواں حضرات بھی مسرت کے ان جذباتی لمحات میں اس بات کی ضر ورت محسوس نہیں کرتے کہ ایک نئی اور پہلے کی نسبت زیادہ ذمہ دارانہ زندگی کا سفر شروع کرنے والے نوواردوں کو مستقبل کے نشیب و فراز سے گزر نے کا سلیقہ سکھلانے والے اس اہم خطبہ کی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نکاح خواں حضرات یا مجلس نکاح میں شامل کوئی بھی دوسرا عالم خطبہ نکاح کا ترجمہ کرکے اس کی مختصر تشریح اور وضاحت کردے ، باسعادت اور نیک روحیں خطبہ نکاح کے احکام میں سے بہت سی نصیحتیں عمر بھر کے لئے پلّے باندھ لیں گی جو ان کی کامیاب ازدواجی زندگی کی ضمانت ثابت ہوں گی اور یوں مجلس نکاح کا انعقاد کسی رسم کی بجائے ایک بامقصد اور نفع بخش عمل بن جائے گا۔ ان شاء اللہ!
2 نکاح میں ولی کی رضامندی اور اجازت :
انعقاد نکاح کے لئے آج تک اسلامی اور مشرقی روایت بھی یہی رہی ہے کہ بیٹیوں کے نکاح باپوں کی موجودگی میں گھروں پر منعقد ہوتے دونوں خاندانوں کے بزرگ افراد کی موجودگی میں بیٹیاں نیک دعاؤں اور تمناؤں کے ساتھ بڑی عزت اور احترام کے ساتھ گھروں سے رخصت ہوتیں اور والدین اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لاتے کہ زندگی کا اہم ترین فریضہ ادا ہوگیا۔ والدین کے چہروں پر طمانیت ، عزت اور وقار کا ایک واضح تاثر موجود ہوتا لیکن جب سے مغرب کی حیا باختہ تہذیب نے ملک کے اندر پر پرزے نکالنے شروع کئے ہیں تب سے نکاح کا ایک اور طریقہ رائج ہونے لگا ہے۔ لڑکا اور لڑکی چوری چھپے معاشقہ کرتے ہیں ایک ساتھ مرنے جینے کا عہد ہوتا ہے ، والدین سے بغاوت کرکے فرار کا منصوبہ بنتا ہے اور ایک