کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 23
امریکہ میں اس وقت ایڈز کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ پچاس لاکھ ہے جبکہ افریقہ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد سات کروڑ پچاس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔[1]عالمی تنظیم برائے صحت (W.H.O) کی رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کو صرف ایڈز سے بچنے کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ خرچ کرنے پڑیں گے۔[2] امریکی سائنسدان ڈاکٹر اسٹریکر نے ایڈز پر اپنا ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ دنیا کی تمام حکومتوں کو ایڈز کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ، ورنہ اکیسویں صدی میں ایڈز کے سبب بہت کم انسان باقی رہ جائیں گے جو حکومت کرنے کے قابل ہوں گے۔[3]
شرح پیدائش میں کمی :
مغرب میں آزاد شہوت رانی کے کلچر نے عالمی سطح پر مغربی ممالک کی آبادی پر کس قدر منفی اثرات مرتب کئے ہیں ، اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے ’’برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں کے میتھوڈسٹ فرقہ سے بڑھ گئی ہے ۔ برطانوی اخبار ڈیلی ایکسپریس کے مطابق اس کی وجہ مسلمانوں کا مستحکم خاندانی نظام ہے جبکہ انگریز لوگ گرل فرینڈ بنا کر جوانی گزار دیتے ہیں۔ مانع حمل ادویات استعمال کرتے ہیں ، شادی کرتے ہیں لیکن بیشتر شادیاں طلاق پر منتج ہوتی ہیں ۔ یوں ان کی تعداد مسلمانوں سے کم ہو رہی ہے۔[4] 1991ء میں امریکی کالم نگار بین وائن برگ نے اپنی کتاب ’’پہلی عالمی قوم‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ فرض کرلینے کی بے شمار وجوہات ہیں کہ آنے والے دور میں مسلمانوں کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا جس کا ایک سبب دنیا بھرمیں مسلمانوں کی شرح آبادی میں معتد بہ اضافہ بھی ہے۔ [5] شرح پیدائش میں کمی کے باعث تمام یورپی ممالک جس اضطراب اور تشویش سے دوچار ہیں اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ رومانیہ کی حکومت نے قانون جاری کیا ہے کہ 5سے کم بچوں والی عورتیں اور جن کی عمر 54سال سے کم ہو ، اسقاط حمل نہیں کراسکیں گی نیز جن جوڑوں کے ہاں کوئی بچہ نہیں ہے ان پر ٹیکس بڑھا دیاجائے گا نیز زیادہ بچوں والے گھرانوں کو زیادہ مراعات دی جائیں گی۔[6]یہودی جوڑوں کو اسرائیلی وزیر اعظم شمعون نے
[1] ہفت روزہ تکبیر ، 10اکتوبر1992ء
[2] عطاظ ، (عربی روزنامہ) جدہ ، 8جون 1993ء
[3] ہفت روزہ تکبیر ، 10اکتوبر1992ء
[4] نوائے وقت ، 2اپریل 1996ء
[5] ہفت روزہ تکبیر ،30مئی 1996ء
[6] جنگ ، لاہور ، 25جون 1986ء