کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 22
زندگی میں بھی تبدیل کرلیتے ہیں ،جس طرح لباس تبدیل کیاجاتا ہے ۔ بوڑھے والدین سوشل سکیورٹی یعنی بڑھاپے کی پنشن پر گزر بسر کرتے مرجائیں تو عام طور پر بے مروت اولاد دفنانے بھی نہیں آتی۔‘‘[1]عورت کے معاشی استقلال نے نہ صرف نکاح کا بوجھ سر سے اتار پھینکا ہے بلکہ شرح طلاق میں بھی بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ امریکی مردم شماری بیورو کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں روزانہ 7ہزار جوڑے نکاح کے بندھن میں باندھے جاتے ہیں جن میں سے 3ہزار 3سو میاں بیوی ایک دوسرے کو طلاق دے دیتے ہیں [2] یعنی پچاس فیصد نکاح ، طلاق پر منتج ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں عورت کی آزادی اور معاشی استقلال نے خاندانی نظام کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے ۔ نوجوان نسل کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے، جنہیں اپنی ماں کا پتہ ہے تو باپ کا پتہ نہیں ، باپ کا پتہ ہے تو ماں کا پتہ نہیں یا پھر ماں باپ دونوں کا علم نہیں۔ بہن اور بھائی کے مقدس رشتہ کا تصور تو بہت دور کی بات ہے۔ امراض خبیثہ کی کثرت: زنا، بدکاری اور ہم جنس پرستی کی کثرت کے نتیجہ میں امراض خبیثہ (سوزاک، آتشک او رایڈزوغیرہ) کی کثرت نے پورے امریکہ اور مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ 1997ء میں ڈنمارک میں ہونے والی میڈیکل کانفرنس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا میں ہر سال سولہ کروڑ تیس لاکھ افراد سوزاک اور آتشک میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں عورتوں کی اموات کی دوسری وجہ آتشک اور سوزاک ہی ہے۔[3] 1975ء میں برطانیہ کے ہسپتالوں میں جنسی امراض کی تعداد 4لاکھ 30ہزار نوٹ کی گئی جن میں سے ایک لاکھ 60ہزار عورتیں اور 2لاکھ 70ہزار مرد تھے۔[4] 1978ء تک دنیا ایڈز کے نام سے واقف نہ تھی ۔ یاد رہے ایڈز (Aids)انگریزی لفظ (Acquired Immune Deficiency Syndrom) کا مخفف ہے۔ جس کا مطلب ہے جسم کے مدافعتی نظام کی تباہی کی علامت ۔ آزاد جنس پرستی کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والی یہ خطرناک بیماری ترقی یافتہ ممالک میں عذاب الیم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
[1] اردو دائجسٹ (امریکہ بہادر کا اصلی چہرہ) جون 1996ء [2] اردو نیوز ، جدہ ، 19دسمبر1996ء [3] نوائے وقت 7اگست 1997ء [4] الامراض الخبیثیہ ، از ڈاکٹر سیف الدین شاہین ، صفحہ 43