کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 21
دوسری آزادی حاصل ہے تو تہذیب مغرب کے ثناخوانوں سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ وہ براہ کرام ہمیں اس سے آگاہ فرمائیں ۔ کیا عورتوں کی اس آزادی کو ’’آزادی نسواں ‘‘ کی بجائے ’’آزادی مرداں‘‘کہنا زیادہ مناسب نہیں جنہوں نے عورت کو آزادی کے اس مفہوم سے آشنا کرکے اتنا بے وقعت اور بے قیمت کردیا ہے کہ جب چاہیں ،جہاں چاہیں بلا روک ٹوک اسے اپنی ہوس کا نشانہ بناسکتے ہیں ؟ کوئی مسلمان خاتون اپنے دین سے خواہ کتنی ہی بیگانہ کیوں نہ ہو کیا ایسی آزادی کا تصور کرسکتی ہے؟
مغرب کے اس آزاد جنسی طرز معاشرت نے اہل مغرب کو کیا کیا تحفے عنایت کئے ہیں ، چلتے چلتے اس کابھی تذکرہ ہوجائے ان تحائف میں خاندانی نظام کی بربادی ، امراض خبیثہ کی کثرت ، شرح پیدائش میں کمی اور خود کشی کے رجحان میں اضافہ سرفہرست ہیں۔ چند حقائق درج ذیل ہیں:
خاندانی نظام کی بربادی :
یورپ کے صنعتی انقلاب نے عورت کو معاشی استقلال تو عطاکردیا لیکن خاندانی نظام پر اس کے اثرات بڑے دور رس مرتب ہوئے۔ عورت جب مرد کی کفالت اور مالی اعانت سے بے نیاز ہوگئی تو پھر قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوا کہ جو عورت خود کمائے وہ مرد کی خدمت کیوں کرے؟ گھر داری کی ذمہ داریاں کیوں سنبھالے؟ برطانیہ کی نیشنل وویمنز کونسل کی ایک خاتون رکن کا کہنا ہے کہ ’’یہ خیال مضبوط ہوتا جارہا ہے کہ شادی کرکے شوہر کی خدمت کے جھمیلے میں کیوں پڑا جائے بس زندگی کے مزے اڑا لئے جائیں بہت سی خواتین یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ ان کو اپنی بقا کے لئے مردوں کے سہارے کی ضرورت نہیں۔‘‘ [1]امریکہ میں ’’تحریک نسواں‘‘ کی علمبردار شیلا کروئن کہتی ہیں ’’عورت کے لئے شادی کے معنی غلامی ہیں اس لئے تحریک نسواں کو شادی کی روایت پر حملہ کرنا چاہئے۔ شادی کی روایت کو ختم کئے بغیر عورت کو آزادی نصیب نہیں ہو سکتی۔‘‘ تحریک نسواں کی عورتوں کا کہنا ہے کہ ’’عورت کا مرد کو چاہنا اور اس کی ضرورت محسوس کرنا عورت کے لئے باعث تحقیر ہے۔ عورتوں کا بچوں اور گھر بار کی دیکھ بھال کرنا ، ان کو کم تربنا دیتا ہے۔ ‘‘[2] امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی امریکی معاشرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’نئی نسل میں نکاح کا رواج نہیں رہا اس کے بغیر ہی لڑکی لڑکا یا مرد عورت اکٹھے رہتے ہیں، بچے بھی پیدا کرتے ہیں اور ہر دو چار سال بعد اپنا شریک
[1] ہفت روزہ تکبیر ، 4ستمبر 1997ء
[2] ہفت روزہ تکبر 13اپریل 1995ء