کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 20
وضاحت بھی کررہے ہیں۔
آزادیٔ نسواں:
کیامغرب میں عورت کو اس بات کی آزادی حاصل ہے کہ وہ گھربیٹھے ہر ماہ اپنی تنخواہ وصول کرتی رہے؟ کیا اسے اس بات کی آزادی حاصل ہے کہ وہ ٹریفک قوانین کی پابندی کئے بغیر اپنی کار سڑک پر چلا سکے؟ کیا اسے اس بات کی آزادی حاصل ہے کہ وہ جس بنک کو چاہے لوٹ لے؟ جی نہیں ! ہر گز نہیں ، عورت بھی ملکی قوانین کی اسی طرح پابند ہے جس طرح مرد پابند ہیں۔ عورت کو مغرب میں اتنی آزادی بھی حاصل نہیں کہ وہ ڈیوٹی کے اوقات میں اپنی مرضی کالباس ہی پہن سکے۔ سیکنڈے نیوین ممالک (ناروے ، سویڈن اور ڈنمارک ) کی ایئر لائنز کی ہوسٹس نے ایک مرتبہ شدید سردی کی وجہ سے منی سکرٹ کی بجائے گرم پاجامے استعمال کرنے کی اجازت چاہی تو انتظامیہ نے خواتین کی یہ درخواست مسترد کری۔ [1]
عورت کو مغرب میں جن باتوں کی آزادی حاصل ہے وہ صرف یہ ہیں سربازارمادر زاد برہنہ ہونا چاہے تو ہوسکتی ہے، اپنی عریاں تصویریں اخبار اور جرائد میں شائع کروانا چاہے تو کرواسکتی ہے ، فلموں میں عریاں کردار ادا کرنا چاہے تو کر سکتی ہے ، جس مرد کے ساتھ زنا کرنا چاہے کر سکتی ہے ، ساری زندگی اولاد پیدا نہ کرنا چاہے تو کر سکتی ہے ، حمل ہونے کے بعد ساقط کروانا چاہے تو کرواسکتی ہے ، بوائے فرینڈ جتنی مرتبہ بدلنا چاہے ، بدل سکتی ہے ، ہم جنس پرستی کا شوق ہو تو بلا تکلف اپنا شوق پورا کرسکتی ہے۔ ’’تحریک آزادیٔ نسواں‘‘ کے مشہور جریدہ ’’نیشنل آرگنائزیشن فاروویمن ٹائمز‘‘ نے جنوری 1988ء کے شمارہ میں آزادی نسواں کے موضوع پر لکھتے ہوئے ’’آزادی نسواں‘‘ کا مطلب یہ بتایا ہے کہ ’’عورت کی حقیقی آزادی کے لئے ضروری ہے کہ خواتین آپس میں جنسی تعلقات قائم کریں۔‘‘ [2] (اور مردوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے سے بے نیاز ہوجائیں ،مولف) ہوٹلوں ،کلبوں، مارکیٹوں،سرکاری اور غیر سرکاری اداروں حتی کہ فوج میں بھی مردوں کا دل بہلانے کے لئے ’’ملازمت‘‘کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں ، گویا مغرب میں عورت کو ہر اس کام کی آزادی حاصل ہے جس سے مردوں کے جنسی جذبات کو تسکین حاصل ہوسکے۔
یہ ہے وہ آزادی جو مغرب میں مردوں نے عورتوں کو دے رکھی ہے اگر اس کے علاوہ عورتوں کو کوئی
[1] نوائے وقت ، 26جون 1996ء
[2] ہفت روزہ تکبیر ،13اپریل 1995ء