کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 19
مساوات مردو زن:
وائس آف جرمنی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ ملتی ہے۔ جرمنی میں سماجی امداد پر گزارہ کرنے و الے مزدوروں میں معمر خواتین کا تناسب 90فیصد ہے جنہیں بڑھاپے کی پنشن نہیں ملتی ۔ جرمنی میں کام کرنے والی تین چوتھائی عورتوں کی آمدنی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اکیلی گھر کا خرچ چلا سکیں۔ جرمنی میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ جرمنی میں ہر سال تقریباً چالیس ہزار عورتیں مردوں کے تشدد کے باعث گھر سے بھاگ کر دارالامانوں میں پناہ لیتی ہیں۔[1] مساوات مردوزن کے سب سے بڑے علمبردار امریکہ کی سپریم کورٹ میں آج تک کوئی خاتون جج نہیں بن سکی۔ فیڈرل ایپلٹ کورٹ کے97ججوں میں سے صرف ایک خاتون جج ہے امریکی بار ایسوسی ایشن میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی۔ امریکہ میں جس کام کے لئے مرد کو اوسطاً پانچ ڈالر ملتے ہیں،عورت کو اسی کام کے تین ڈالرملتے ہیں۔[2] 1978ء میں ہوسٹن امریکہ میں تحریک آزادی نسواں کی کانفرنس میں خواتین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایک ہی طرح کے کام کے لئے مردوں اور عورتوں کو برابر کا معاوضہ ملنا چاہئے۔[3] جاپان میں ڈیڑھ کروڑ عورتیں مختلف جگہوں پر کام کرتی ہیں ، جن میں سے زیادہ تر خواتین مرد افسروں کے ساتھ معاون کے طورپر کام کرتی ہیں۔ [4]کیا یہ بات قابل ِغور نہیں کہ مساوات مردوزن کا نعرہ لگانے والے ممالک نے اپنی افواج میں کمانڈر انچیف کے عہدے پر کسی عورت کا آج تک کیوں تعین نہیں کیا یا کم از کم جرنیل کے درجہ پر ہی عورتوں کو مردوں کے مساوی عہدے کیوں نہیں دیئے؟ کیا کوئی مغربی ملک میدان جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے عہدے پر مردوں اور عورتوں کو مساوی جگہ دینے کے لئے تیار ہے؟ یہ ہے وہ مساوات مردوزن ، جس کا پروپیگنڈہ دن رات کیا جاتا ہے۔ مساوات مردوزن کے علاوہ ایک اور نعرہ جو عام آدمی کے لئے بڑی کشش رکھتا ہے ، وہ ہے ’’آزادی ٔ نسواں‘‘ کا ۔ کیا مغرب میں عورت کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے؟ ذیل میں ہم اس کی
[1] خبریں ، 4ستمبر1995ء
[2] خاتون اسلام ، از مولانا وحید الدین خان ،صفحہ 73
[3] ہفت روز تکبیر ،13اپریل 1995ء
[4] خاتون اسلام ، صفحہ 93