کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 16
یہ ہے کہ مغربی طرز معاشرت میں بدکاری اور فحاشی کے سامنے اخلاقی اور مذہبی اقدار بالکل غیر موثر ہوچکی ہیں۔ عام آدمی تو کیا بڑی سے بڑی مذہبی شخصیت کا بھی اس طرز معاشرت میں پارسا رہنا ممکن نہیں رہا۔ ترقی یافتہ ممالک میں زنا کاری ، فحاشی ، اور بے حیائی کے اس کلچر کی ایک اور تصویر نیوز ویک کی اس رپورٹ سے سامنے آتی ہے جس میں امریکہ اور یورپ کے سترہ ممالک میں بن بیاہی ماؤں کی شرح فیصد شائع کی گئی ہے جو کہ درج ذیل ہیں: نمبر شمار نام ملک بن بیاہی ماؤں کی شرح فیصد نمبر شمار نام ملک بن بیاہی ماؤں کی شرح فیصد 1 سویڈن 50 فیصد 10 پرتگال 17 فیصد 2 ڈنمارک 47 فیصد 11 جرمنی 15 فیصد 3 ناروے 46 فیصد 12 نیدرلینڈ 13 فیصد 4 فرانس 35 فیصد 13 لکسم برگ 13 فیصد 5 برطانیہ 32 فیصد 14 بلجیم 13 فیصد 6 فن لینڈ 31 فیصد 15 اسپین 11 فیصد 7 امریکہ 30 فیصد 16 اٹلی 7 فیصد 8 آسٹریا 27 فیصد 17 سوئٹزرلینڈ 6 فیصد 9 آئرلینڈ 20 فیصد 18 یونان 3 فیصد زناکاری ، فحاشی اور بے حیائی کے اس ابلیسی طوفان نے مغرب کے تمام ترقی یافتہ ممالک کو جنسی درندوں کا جنگل بنا دیا ہے۔ امریکی جریدہ ’’ٹائمز‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی ، فرانس، چیکوسلواکیہ، رومانیہ ، ہنگری اور بلغاریہ کی بڑی بڑی شاہراہوں پر فاحشہ عورتیں قطار باندھے کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ برلن اور پراگ کو ملانے والی بارہ سو کلومیٹر لمبی شاہراہ غالباً دنیا کا ارزاں ترین اور طویل ترین جنسی اڈہ ہے جہاں سے گزرنے والوں کو نہایت سستی عیاشی کے لئے نوخیز اور حسین و جمیل لڑکیاں مل جاتی ہیں۔[1] ایک سروے کے مطابق برطانیہ کی مشہورترین یونیورسٹی آکسفورڈ میں زیر تعلیم 76فیصد طلباء شادی کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنے کے حق میں ہیں۔51فیصد طالبات نے تسلیم کیا کہ وہ یونیورسٹی میں آنے کے
[1] نوائے وقت ، 26جون 1997ء