کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 14
میں ہے ؟ عورت پر ہونے والے ظلم و ستم کا خاتمہ مغربی طرز معاشرت میں ممکن ہے یا اسلامی طرز معاشرت میں؟ عورت کے حقوق کا اصل محافظ مغربی طرز معاشرت ہے یا اسلامی طرز معاشرت ؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ مغربی طرز معاشرت پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈال لی جائے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ مغربی طرز معاشرت ہے کیا؟ مغربی طرز معاشرت : اٹھارویں صدی کے آخر میں یورپ میں صنعتی انقلاب برپا ہوا تو بڑی تیز رفتاری سے کارخانے اور فیکٹریاں بننی شروع ہوگئیں۔ ان فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لئے جب مردوں کی تعداد کم پڑ گئی تو مزید ہاتھ مہیا کرنے کے لئے سرمایہ دار نے عورت کو چادر اور چاردیواری سے نکال کر صنعتی ترقی کے لئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے لئے ’’مساوات مردو زن‘‘ ، ’’آزادی نسواں‘‘ اور ’’حقوق نسواں ‘‘ جیسے خوبصورت نعرے اورفلسفے تراشے گئے۔ ناقص العقل عورت مساوات مردوزن کے دلفریب جال کو ہی اپنی بلندی درجات خیال کرتے ہوئے مردوں کے دوش بدوش میدان معیشت میں کود پڑی جس کا اصل فائدہ توسرمایہ دار ہی کو ہوا لیکن اس کا ضمنی فائدہ یہ بھی ہوا کہ پہلے جہاں صرف ایک مرد کی کمائی سے گھر کے چار یا پانچ افراد کو محض وسائل زندگی مہیا ہوتے تھے وہاں اسی گھر کے دو یا تین افراد کے برسر روزگار ہونے سے وسائل زندگی کی دوڑ کا آغاز ہوگیا اور یوں مردوں ، عورتوں کافیکٹریوں اور کارخانوں میں شب وروز مشینوں کی طرح کام کرنا ہی مقصد حیات ٹھہرا۔ دفاتر، فیکٹریوں اورکارخانوں میں عورتوں اور مردوں کے آزادنہ اختلاط کا دائرہ صرف وہیں تک محدود رہنا ممکن ہی نہ تھا ۔ آہستہ آہستہ یہ دائرہ ہوٹلوں، ریستورانوں، کلبوں ، ناچ گھروں ، مارکیٹوں ، بازاروں سے لے کر سیاست کے اکھاڑوں ، سیر گاہوں ، تفریح کے پارکوں اور کھیل کے میدانوں تک وسیع ہوگیا۔ پوری سوسائٹی میں مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے شرم وحیا کی اقدار کو ایک ایک کرکے پامال کردیا ۔ مردوں کے دوش بدوش چلنے والی عورت میں آرائش حسن، نمائش جسم ، جلوہ نمائی، پُرکشش ، دلربا اور جاذب نظر آنے کا جذبہ فزوں سے فزوں تر ہونا بالکل فطری بات تھی جس کے لئے باریک ، تنگ ، بھڑکیلے ، نیم عریاں لباس پہننا ، نیز بناؤ سنگھار کرنا مردوں کے ساتھ نیم عریاں حالت میں سوئمنگ کرنا،