کتاب: نکاح کے مسائل - صفحہ 10
بسم اللّٰه الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ اَمَّا بَعْدُ!
نکاح انسان کی زندگی کے انتہائی اہم موڑکی حیثیت رکھتا ہے ۔ والدین کے ہاں بیٹاپیدا ہوتا ہے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا ، ماں باپ بڑے پیار اور محبت سے اپنے راج دلارے کی پرورش میں لگ جاتے ہیں، دنیا کا ہر دکھ اور مصیبت برداشت کرکے اپنے بیٹے کو آرام اور سکون مہیا کرتے ہیں، ایثار اور قربانی کی نادر مثالیں پیش کرکے بچے کی تعلیم و تربیت اوراس کے مستقبل کے لئے دن رات ایک کردیتے ہیں۔ ننھا منا پودا دیکھتے ہی دیکھتے تناور درخت بن جاتا ہے تو بوڑھے والدین کی رگوں میں جوان خون دوڑنے لگتا ہے ۔ نوجوان بیٹا والدین کی تمناؤں اور حسین خوابوں کا مرکز بن جاتا ہے ۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی والدین کو بیٹے کی شادی کی فکر لا حق ہوجاتی ہے ۔ ماں باپ اپنے پیارے بیٹے کے لئے ایسی بہو تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں جو لاکھوں میں ایک ہو، مبارک سلامت کی دعاؤں کے ساتھ بہو گھر آجاتی ہے ۔ مشکل سے چند ہفتے گزرتے ہیں کہ موسم بہار، خزاں میں بدلنے لگتا ہے ۔ والدین جو اس دنیا میں اولاد کے لئے رب کی حیثیت رکھتے ہیں ، بیٹے کو ان کی نصیحتیں گراں گزرنے لگتی ہیں ، بیٹا جو پہلے والدین کی آنکھوں کا تارا تھا ’’رن مرید‘‘ کہلانے لگتا ہے۔ بہو ، جو گھر میں آنے سے پہلے لاکھوں میں ایک تھی ، زمانے بھر کی پھوہڑ کہلانے لگتی ہے۔ نوبت بایں جا رسید کہ معاشرے کی اس اہم ترین مثلث بیٹا ، بہو،