کتاب: ںصیحتیں میرے اسلاف کی - صفحہ 86
استاد کی بدعا سے بچو: امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے محمد بن داؤد بن سلیمان سے سنا ہے وہ فرماتے ہیں ہم امام حسن بن سفیان کی مجلس میں حاضر تھے کہ ابن خزیمہ ، ابو عمرو اور احمد بن علی رازی فراوہ کو جاتے ہوئے ادھر آنکلے اور رازی شیخ سے کہنے لگے میں نے اس کتاب میں آپ کی احادیث تحریر کی ہیں بولے ، لائیے اور پڑھئیے۔ رازی نے پڑھنا شروع کیا اور کسی مناسب موقع پر اس کی سند میں کوئی اور سند داخل کردی ۔ شیخ نے ان کی اصلاح کی۔ تھوڑی دیر کے بعد اسنے پھر ایسا کیا ۔ شیخ نے پھر اصلاح کی جب تیسری مرتبہ ایسا ہوا تو فرمانے لگے کیا کرتے ہو؟ میں نے دو دفعہ تمہاری یہ حرکت برداشت کی ہے میں نوے سال کا بوڑھا ہوں مجھے پریشان کرتے ہو ؟ خدا سے ڈرو مشائخ کے ساتھ ایسی حرکت مت کرو کہیں کسی کی بد دعاکا شکار نہ ہوجانا ۔یہ سن کر ابن خزیمہ بولے ہوش کرو ۔شیخ کو اذیت نہ پہنچاؤ اس پر اوزاعی نے کہا میں آپ کو دکھا نا چاہتا تھا کہ ابو العباس رحمہ اللہ اپنی حدیث جانتے ہیں ۔‘‘ (تذکرۃ الحفاظ : ۲ / ۴۹۰ اردو) استاد اور شاگر کا آپس میں تعلق کیسا ہونا چاہئے ایک نصیحت : آہ شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان نورپوری رحمۃ اللہ علیہ دارا لحدیث راجووال میں علم کی بارش ۱۹۶۶ء مرتب :عنایت اللہ امین مدرس راجووال (وضاحت :راقم اپنی کتاب(نصیحتیں میرے اسلاف کی)شایع کرنے کاعزم مصمم کر چکا تھا اچانک ۲۳نومبربروز ہفتہ ۲۰۱۳ء کی صبح کھانے کی چھٹی کے وقت دارالحدیث راجووال میں مختلف شیوخ کی موجودگی میں راقم نے کہا کہ اگر کسی کے پاس کسی شیخ کی قیمتی کی نصیحت ہو تو وہ مجھے بیان کر دے تاکہ کتاب میں شامل ہو سکے اس پر شیخ عنایت اللہ