کتاب: ںصیحتیں میرے اسلاف کی - صفحہ 78
عالم وہ ہے جو خیر کی اتباع اور برائی سے اجتناب کرتا ہے: ’’ لیس العالم الذی یعرف الخیر من الشر، ولٰکن العالم الذی یعرف الخیر فیتبعہ و یعرف الشر فیتقیہ۔‘‘ ( الفوائد : ۱ / ۲۴۰) ’’وہ عالم نہیں جو خیر کو شر سے پہنچانتا ہے لیکن حقیقی عالم وہ ہے جو خیر کو پہنچانتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے اور شر کو پہنچانتا تو اس سے پرہیز کرتا ہے۔‘‘ ( الفوائد : ۲۴۰) عالم اللہ سے ڈرانے والا ہوتا ہے: یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :(العالم من خشی اللّٰہ ، و یحسب امری من الحمل أن یعجب العلم) ’’آدمی کو ایسا علم کانی ہے جس کے ذریعے وہ اللہ سے ڈرے، اور آدمی کو جاہل ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے علم کی وجہ سے خوش ہو۔‘‘ طالب علم کے دن اور رات کیسے ہونے چاہئیں ؟: فرماتے ہیں :’’اذا کان نھاری نھار سفیہ ، ولیلی لیل جاھل فما أ صنع یالعلم الذی کتب۔‘‘ ( اخلاق العلما ء : ۷۲، الفوائد : ۱ / ۲۱۶) جب میرا دن بے وقوف کے دن کی طرح ہو اور میری رات جاہل کی طرح ہو تو میں اپنے لکھے ہوئے علم کو کیا کروں ۔ علم کے حصول کی شرط اول تقویٰ اور عمل ہے: زیاد بن جزیمہ الأ سلمی فرماتے ہیں :’’ ما فقہ قوم لم یبلغو التقی ۔‘‘ ( الفوائد : ۱ /۲۰۸) وہ قوم کبھی بھی علم حاصل نہیں کرسکتی جو متقی نہ ہو۔ مالک بن دینار کہتے ہیں : ’’ لا خیر لک فی أ ن تعلم مالم تعمل قال: ومثل ذلک مثل رجل احتطب حطبا مخزم حزمتہ ثم ذھب بحملھا فعجز عنھا ،