کتاب: ںصیحتیں میرے اسلاف کی - صفحہ 69
مطلب ہے ، اس پر صحیح طور پر ایمان رکھا جائے اور اس کی عبادت اخلاص سے کی جائے،کتاب اللہ کی خیر خواہی،اس کی تصدیق ،تلاوت کا التزام،اس کی تحریف سیاجتناب اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کی رسالت کی تصدیق ،ان کے حکم کی اطاعت اور ان کی سنتوں کی پابندی کی جائے۔ مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی کا مطلب ہے ۔ حق میں ان کی اعانت،غیر معصیت میں ان کی اطاعت کی جائے ، وہ سیدھے راستے سے انحراف کریں تو انہیں معروف کا حکم دیا جائے اور ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کیا جائے الا یہ کہ ان سے کفر صریح کا اظہار ہو اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کی دنیا و آخرت کی اصلاح کے لیے ، ان کی صحیح رہنمائی کی جائے،انہیں نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے۔(مولانا صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ) اور اگر کوئی شخص ایک مسلمان بھائی کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے نصحیت کرے اور وہ جواب میں کہے کہ اپنے کام سے کام رکھو تو یہ بات اللہ مالک الملک کو انتہائی ناپسند ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب ترین کلام یہ ہے کہ بندہ یہ کہے : سبحان اللہم وبحمد ، وتبارک اسمک ، وتعالیٰ جدک ، ولا الہ غیرک اے اللہ تواپنی تعریف کے ساتھ پا ک ہے اورتیرانام بابرکت اورتیری شان بلند ہے اورتیرے علاوہ کوء معبود برحق نہیں اوراللہ تعالیٰ کیہاں مبغوض ترین کلام یہ ہے کہ بندہ کسی شخص کوکہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو ، اوروہ جواب میں اسے کہے کہ اپنا کام کرو اوراپنا آپ سنبھالو دیکھیں ۔ الصحیحۃ للالبانی حدیث نمبر( 2598)