کتاب: ںصیحتیں میرے اسلاف کی - صفحہ 67
اپنے معاصر علماء سے درپیش مسئلہ پر بحث کرنے کو لازم پکڑنا چاہیے، ورنہ غلط فتوے صادر ہوں گے جن کا نقصان ہے۔کیانکہ عامی کے ہاں فتویٰ کی بڑی وقعت ہوتی ہے۔۔۔۔ امام مالک فرماتے ہیں :’’جب ستر شیوخ نے فتویٰ نویسی میں میری اہلیت کی شہادت نہیں دی میں نے فتویٰ نہیں دیا ۔‘‘ (تذکرۃ الحفاظ ج ۱/ ص ۱۷۶) بقول سید بن عبدالعزیز :’’آدھے علم کو کبھی نہ بھولیں ۔‘‘ (تذکرۃ الحفاظ ج ۱/ ص ۱۸۳) عالمِ دین اپنے دین اور مروت کو ضائع نہ کرے: اما م مالک فرماتے ہیں :’’اگر دین اور مروت ضائع کرنے سے آدمی کو دنیا کثرت مل بھی جائے تو اس میں کوئی خوبی نہیں ۔‘‘ (تذکرہ الحفاظ ج ۱/ ص ۱۷۸) خاموشی اختیار کرنا : امام سعید بن عبد العزیز تنوخی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’دنیا میں خوبی صرف خاموش طبع ‘یاد رکھنے والے اور صاحب ِ علم‘ بولنے والے میں ہے۔‘‘ (تذکرۃالحفاظ ج۱ / ص ۱۸۳) خصوصاََ علما کی موجودگی میں خاموشی اختیار کرنا سلامتی ہی سلامتی ہے۔ سامع کی استطاعت کے مطابق علمی بات کرنی چاہیے: امام عروۃ بن زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’میں کسی سے اس کی فہم و عقل سے بالا کوئی علمی بات نہیں کرتا کہ کہیں یہ بات اس کے لئے کسی گڑھے کا باعث نہ بن جائے۔‘‘ ( فقہائے مدینہ : ۱۸) ذلت کی بات کو برداشت کرنا کبھی فائدہ دے جاتا ہے: اگر کوئی کم عقل آدمی آپ کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو آپ صبر سے کام لیں اور اس کو محض مجبوری سمجھ کر کنارہ کش ہوجائیں ۔ ایک مصلح آدمی نصیحت کا وہ انداز اپنائے