کتاب: ںصیحتیں میرے اسلاف کی - صفحہ 65
عبادت میں بسر ہی نہیں کی۔ ان کی یہ حد سے بڑھتی ہوئی عبادت اور آہ وبکا کو دیکھ کر ان کی والدہ پوچھتیں تم نے کہیں قتل کا ارتکاب تو نہیں کیا؟ فرماتے: میرے نفس نے جو کچھ کیا ہے وہ میں ہی جانتا ہوں ۔‘‘۔۔۔۔۔۔ بہت ذیادہ گریہ و زاری کی وجہ سے آپ کی آنکھیں خراب ہو گئیں تھیں ۔ ہمسایوں کی ایک لڑکی نے ایک دفعہ پوچھا ۔ اباجان ! منصور کے گھر میں ایک ستون نظر آتا تھا وہ کیا ہوا اب نظر نہیں آتا ؟اس کے باپ نے جواب دیا ، بیٹی ! وہ تو منصور تھے رات کو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے اب انتقال کر گئے ۔ ثوری کہتے ہیں :’’اگر تم منصور کو نماز پڑھتے دیکھتے تو کہتے یہ ابھی مر جائیں ۔‘‘
(تذکرۃ الحفاظ ج ۱ /ص ۱۴۹)
۴۔ اما م سلیمان بن یسار رحمہ اللہ :
امام سلیمان بن یسار گھر میں اکیلے تھے اس وقت ایک حسین و جمیل عورت نے آکر برائی کی دعوت دی تو انھوں نے رونا شروع کر دیا وہ عورت یہ صورت حال دیکھ کر انگشت بدنداں ہو کر کھڑی ہوگئی جب رونے میں ذرا نرمی آئی تو اس نے پھر دعوت دی آپ نے اور زیادہ اونچی آواز سے رونا شروع کردیا، وہ عورت گھبرا کر وہاں سے چلی گئی۔‘‘
( فقہائے مد ینہ : ۱۴۱)
تمیم بن حماد رحمہ اللہ کہتے ہیں : جب امام عبد اللہ بن مبارک کتا ب الذمہ پڑھتے تو اس قدر روتے کہ آپ کے گلے سے ذبح کی ہوئی گائے کی آواز نکلتی اور کوشش کے باوجود بات نہیں کر سکتے تھے۔‘‘ (تذکرۃالحفاظ ج ۱/ ص ۲۲۰)
اگر شاگرد دھوپ میں بیٹھیں تو استاد بھی دھوپ میں ان کے ساتھ بیٹھے الا کہ کوئی مجبوری نہ ہو: امام ھارون بن عبد اللہ فرماتے ہیں :’’ ایک دفعہ امام احمد شام کے وقت آئے اور رات