کتاب: ںصیحتیں میرے اسلاف کی - صفحہ 63
چیز کا زیادہ خطرہ ہے وہ حدیث ہی ہے انہوں نے یہ بھی کہا: میں چاہتا ہوں کہ میں حمام کے نیچے آگ جلانے والا مزدور ہوتا اور علمَِ حدیث نہ حاصل کرتا ۔‘‘(یہ کہناخوف الہی اور انجا م دہی کے جواب کی بنا پرتھا) (تذکرۃ الحفاظ ۱/ ۱۲۷-۱۲۸) مجالد کہتے ہیں ۔’’امام شعبی نے کہا: عوام الناس بھی کتنے اچھے ہوتے ہیں سیلاب آئے تو اس کے آگے بند باندھتے ہیں ، آگ لگے تو اسے بجھا تے ہیں اور برے حکام کے خلاف آواز بلند کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔امام موصوف فرمایا کرتے تھے: کاش! میں اپنے علم سے برا بر برابر نجات پاجاؤں نہ اس کا مجھے فائدہ ہو اور نہ اس کی ذمہ داری کے متعلق مجھ سے باز پرس ہو۔‘‘ امام ہشام بن حسّان رحمہ اللہ ۔(تذکرۃالحفاظ ج ۱ / ص۸۸) اَزَدی فرماتے ہیں :’’ کاش! میرا علم میرے لیے وجہ کناف ہوجائے مجھے اس کا فائدہ ہو اور نقصان۔‘‘ امام ابو بکر بن عباس رحمہ اللہ ۔(تذکرۃالحفاظ ج ۱ / ص۱۴۴) اگر آنکھیں نہ روئیں تو ان کا کیا فائدہ؟ فرماتے ہیں :’’ علم میں داخل ہونا آسان ہے لیکن اس سے کماحقہ کامیاب ہو کر اللہ تعالیٰ کے پاس جانا مشکل ہے۔‘‘ ( تذکرۃالحفاظ ج ۱/ ص ۳۱۲) امام ثابت بنانی رحمتہ اللہ علیہ : حماد بن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’میں نے ثابت کو روتے دیکھا ہے کہ آپ کی پسلیاں اِدھر سے اُدھر ہوتی دکھائی دیتی تھیں ۔ جعفر بن سلیمان رحمہ اللہ کا بیان ہے :’’ثابت بنانی رحمہ اللہ اس قدر روئے کہ آنکھیں ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ، کسی نے سمجھایا تو بولے اگر آنکھیں نہ روئیں تو انکا کیا فائدہ؟‘‘ (تذکرۃالحفاظ ج ۱ / ص۱۱۲) کاش! ہم علم حدیث کی ذمہ داری سے نجات پاجائیں ۔نیز فرماتے: مجھے تعجب ہوتا ہے کہ