کتاب: ںصیحتیں میرے اسلاف کی - صفحہ 60
لیکن مفت نہیں دوں گا میں آپ سے انکی معمولی سی قیمت صرف ۳ روپے لوں گا تاکہ آپ ان کی قدر کرو۔ استاد کے شاگردوں کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں ؟: ہمیں قاری ادریس ثاقب حفظہ اللہ( مدیر جامعہ محمد بن اسمٰعیل بخاری گندھیاں اوتاڑ قصور) نے بتایا کہ قاری محمود الحسن بڈھی مالوی حفظہ اللہ نے نصیحت کی تھی :’’کلاس میں طلبا سے سنجیدہ رہو اور کلاس سے باہر طلبا میں گھل مل جاؤ انھیں محسوس تک نہ کرواؤ کہ میں تمہارا استاد ہوں ، طلباء کے لئے چوبیس گھنٹے رعب میں نہ رہوکہ وہ آپ سے ہر وقت ڈرتے ہی رہیں ۔‘‘ طلبہ کی چیز استعمال نہ کریں : ابو یحیٰ فرماتے ہیں کہ :’’ایک دفعہ امام زکریا بن عدی تمیمی کوفی رحمہ اللہ کی آنکھ دکھنے لگی تو ایک شخص اس میں ڈالنے کے لئے سرمہ لے آیا ، پوچھا تم حدیث پڑھنے والے طالب علم ہو ؟بولا :ہاں ۔یہ سن کر انھوں نے سرمہ واپس کر دیا۔‘‘ (تذکرۃالحفاظ ج ۱/ ص ۳۰۰) استاد کو کلاس میں بارعب ہو کر بیٹھنا چاہیے : جعفر بن احمد حافظ کہتے ہیں : میں نے محدثین میں محمد بن رافع سے زیادہ رعب دار کوئی محدث نہیں دیکھا یہ اپنے گھر میں صنوبر کے درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھتے تھے ، پھر علما اور خاندانِ ظاہریہ کے شہزادے اپنے خادموں سمیت ان کے سامنے حسب ِ مراتب اس طرح خاموش بیٹھتے تھے ۔ جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں کتاب ہاتھوں میں لے کر خود قرأت کرتے تھے انکے احترام اور جلالت کے پیشِ نظر کسی کو بولنے یا مسکرانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی اگر کسی کو بولنے کی ضرورت پڑتی تو کھڑے ہو کر بات کرتا تھا۔‘‘ (تذکرۃ الحفاظ ج ۲/ ص ۳۷۱)