کتاب: ںصیحتیں میرے اسلاف کی - صفحہ 58
قریب ایک علیحدہ منزل میں منتقل کردیا گیا ہے۔ جس سے پوری دنیا سے تشریف لانے والے علما و طلبا رہتی دنیا تک استفادہ کرتے رہیں گے اور شیخ البانی رحمہ اللہ کے لئے صدقہ جاریہ بنا رہے گا ۔ان شاء اللہ ۔ آج بعض جامعات اور شیوخ رحمتہ اللہ علیھم کے مکتبہ جات ضائع ہورہے ہیں جن کے اوراق پر مٹی کے سوا کچھ نہیں ہے۔نہ وہ کتابیں کسی کو پڑھنے کے لئے دی جاتیں ہیں اور نہ ہی کسی باذوق شخص اور اچھے ضرورت مند ادارے کو ہبہ کی جاتی ہیں ۔ہماری رائے ہے کہ ایسی کتابیں کسی نہ کسی کو ہبہ کر دینی چاہئے ورنہ علمی ورثہ کو ضائع کرنا اعمال کی بربادی کا سبب نہ بن جائے! مطالعہ کے لئے کسی کو کتاب دے دینی چاہیےاگر کتاب مانگنے والا نیک، وعدے کا پکا اور مطالعے کا شوق رکھنے والا ہو: ابراہیم حربی کہتے ہیں ، ’’امام احمد بن حنبل ہر جمعہ کو بھیج کر ابن ِ سعد سے واقدی کی حدیث سے دو جز منگوالیتے اور مطالعہ کرنے کے بعد جمعہ کو وہ جز واپس کر دیتے اور اگلے جز منگوالیتے تھے۔‘‘ (تذکرہ ا لحفاظ ج ۲/ ص ۳۱۹) تاریخ میں اور بھی بہت زیادہ واقعات ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ سلف صالحین ایک دوسرے کو عاریتہََ کتب مطالعے کے لئے دے دیتے تھے ۔ اس سے کتاب دینے والے کی وسعتِ ظرفی اور اخلاق حسنہ بھی نکھر کر سامنے آتا ہے اور ایک دوسرے سے محبت بھی بڑھتی ہے ورنہ علماء تو آپس میں حسد و بغض لیے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔آمین ثم آمین۔ دورِ حاضر میں بھی اس کی خال خال مثالیں ملتی ہیں راقم الحروف ایک دیہات کے