کتاب: ںصیحتیں میرے اسلاف کی - صفحہ 57
استاد محتر م اثری صاحب فرمانے لگے: کہ اب یہ کتاب فیصل آباد میں صرف ہمارے ادارہ علوم اثریہ میں ہے ،اور کسی مکتبہ میں نہیں ہے۔‘‘ بعض علما نے راقم الحروف کو بھی بعض زائد کتابیں ہدیہ دی ہیں مثلاََ : شیخ عبد الر حمٰن ضیاء حفظ اللہ نے راقم کو(ارشاد الساری الی نقد فیض الباری)کی ایک جلد ہدیہ دی ۔ اسی طرح محترم حافظ شاہد محمود مدیر ام القری گوجرانوالا کے پاس جب بھی گیا تو انھوں نے کتب ضرور تحفہ دیں ۔ ہمیں مولانا میاں اسماعیل سلفی حفظہ اللہ سٹی قصور(بہت نیک بزرگ عالم دین اورتاجر بھی ہیں ہم نے سٹی قصور میں اتنا فکرمند اور مدبر دینی امور کے حوالے سے ان سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا اور جب بھی ان سے مشورہ کیا تو انھوں نے کمال محبت اور لگن سے ہمیں تجاویز عنایت فرمائیں راقم انھیں اللہ کا ولی تصور کرتا ہے ۔بارک اللہ فیہ)نے بیان کیا کہ میں جب بھی استاد محترم بابا جی یوسف راجووالوی رحمہ اللہ کے پاس گیا تو انھوں نے مجھے اپنی مطبوعہ کتاب ضرور تحفہ میں دی اور ساتھ کہا کرتے تھے مولوی اسماعیل ایک جمعہ کا خطبہ صرف اس کتاب سے مطالعہ کرکے ضرور پڑھانا ہے تاکہ یہ کتاب میرے لیے صدقہ جاریہ بن سکے ۔جزا ہ اللّٰہ خیراََ۔ فوت ہونے سے پہلے کتابیں کسی عالم کو دینے کی وصیت کر جانا: امام حماد فرماتے ہیں : اما م ابو فلابہ کا ملک شام ہی میں انتقال ہوا ، وفات سے پہلے اپنی کتابیں حضرت ایوب سختیانی کو دینے کی وصیت فرمائی چنانچہ وہ ایک اونٹ پر لاد کر ان تک پہنچا دی گئیں ۔ (تذکرۃ الحفاظ ج ۱/ ص ۹۳) شیخ محدث ناصر الدین البانی رحمتہ اللہ کا ذاتی بہت بڑا مکتبہ تھا انھوں نے وصیت میں لکھا تھا کہ میرا سارا مکتبہ جامعہ اسلامیہ(مدینہ یونیورسٹی( کو ہبہ کر دینا ۔ ان کے فوت ہونے کے بعد وہ بڑا قیمتی مکتبہ جامعہ اسلامیہ کو ہبہ کر دیا گیا اب وہ مدینہ یونیورسٹی کے