کتاب: ںصیحتیں میرے اسلاف کی - صفحہ 50
۶۔ غربت و امارت جسے اللہ دے۔
۷۔ قرآن و حدیث بر حق ہیں ان کی مخالفت کرنے والے ظالم بادشاہ کے سامنے حق
بات دو ٹوک کرنا بغیر کسی ڈر کے علمائے حقہ پر ضروری ہے۔
ہم یہاں نصیحت کے لئے ایک واقع نقل کرتے ہیں ، فریابی کہتے ہیں ایک دفعہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ، امام اوزاعی رحمہ اللہ اور عباد بن کثیر رحمہ اللہ مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے تو سفیان نے امام اوزاعی سے کہا ’’ابو عرو ! خلیفہ سفاح کے چچا عبد اللہ بن علی کے دربار میں آپ کی اسی سوچ پر جو گفتگو ہوئی تھی اس کی تفصیل ہمیں بتائیے ۔
فرمایا سنو!جب وہ شام آیا اور بنو امّیہ کے قتل عام سے فارغ ہوا تو ایک دن اس نے اپنا دربار منعقد کیا ۔ سپاہیوں کو چاروں قطار وں میں اس طرح کھڑا کیا کہ ایک قطار کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں ، دوسری کے ہاتھوں میں بیڑیاں ، تیسری کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور چوتھی قطاروالوں کے ہاتھوں میں کوڑے تھے پھرمجھے لانے کے لئے پیادے بھیجے جب ہم دروازے پر پہنچے تو انھوں نے سواری سے اتار لیا پھر دو پیادوں نے مجھے دونوں بازؤ ں سے پکڑ لیا اور مذکورہ بالا قطاروں کے درمیان مجھے ایسی جگہ کھڑا کر دیا جہاں سے وہ میری بات بآسانی سن سکتا تھا ۔ مجھے سامنے کھڑا دیکھ کر بولا تم ہی عبد الرحمان بن عمرو اوزاعی ہو ؟ میں نے کہا :جی ہاں ! اللہ تعالیٰ امیر کو نیکی کی توفیق عطا فرمائے ۔ بولا بنو امّیہ کے قتل عام کے متعلق کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: آپ نے ان سے امن کا عہد کیا تھا۔جسے بہر صورت آپ کو پورا کرنا چاہئے تھا ، کڑک کر بولا تم پر ہلاکت ہو ، میں نے اپنے اور انکے درمیان کسی معاہدہ امن کا ذکر نہیں سننا چاہتا اس وقت میری روح قتل کے خوف سے کانپنے لگی لیکن میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں کھڑا ہونے کا تصور کرتے ہوئے اپنی جان سے بے پرواہ ہوکر کہا ’’آپ پر ان کا خون بہانا حرام تھا‘‘ اب تو وہ غصہ سے بھر گیا ، اسکی رگیں پھول گئیں اور