کتاب: ںصیحتیں میرے اسلاف کی - صفحہ 25
رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ(الاعراف68۔ 67: 7)
انہوں نے کہا کہ بھائیو مجھ میں حماقت کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں۔ میں تمہیں خدا کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہارا امانت دار خیر خواہ ہوں۔
قوم صالح اپنی ہٹ دھرمی ،ضد اور استکبار کی بنیاد پر جب تباہ و برباد کر دی گئی تو حضرت صالح علیہ السلام نے کہا :يَاقَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَكِنْ لَا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ(الاعراف 79: 7)
ترجمہ: پھر صالح علیہ السلام ان سے (ناامید ہو کر) پھرے اور کہا کہ میری قوم! میں نے تم کو خدا کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم (ایسے ہو کہ ) خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔
درج بالا شواہد کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں اللہ تعالیٰ کے بعد انبیاء کرام اپنے اپنے عہد کے سب سے بڑے ناصح ہیں۔ نیز مذکورہ آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امتوں کا عروج و زوال نصیحت کو قبول کرنے یا نہ قبول کرنے سے وابستہ ہے ۔ صالح افراد ہمیشہ بڑوں کی نصائح پر کان دھرتے ہیں اورکامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں۔ غیر صالح اور منکرین نصیحت سے اعراض کرتے ہیں اورتباہی و بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔
دین اسلام پوری انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی سب سے مکمل و اکمل، افضل و احسن اورآخری نصیحت ہے، جب تک دنیا کسی نہ کسی حوالے سے اس نصیحت کو یاد رکھےگی ،بہر حال قائم رہے گی اور جب دنیا اس نصیحت سے کامل اعراض برتے گی اس کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور یوم حساب شروع ہو جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :