کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 99
پابندکردیا ہے تاکہ وہ اپنی اہواء و خواہشات کے حصول میں دین کا حلیہ نہ بگاڑ بیٹھیں ‘‘۔
4۔ علّامہ ابن خلدون[ المتوفی 808 ھ] اس حقیقت کایوں اظہار کرتے ہیں :
(فَجَائَ تِ الشَّرَائِعُ بِحَمْلِہِمْ عَلیٰ ذَالِکَ فِیْ جَمِیْعِ أَحْوَالِہِمْ مِنْ عِبَادَۃٍ أَوْ مُعَامَلَۃٍ حَتّیٰ فِي الْمُلْکِ الَّذِی ہُوَ الطَّبِیْعِيُّ لِلْاِجْتِمَاعِ الْاِنْسَانِیِّ فَاَجْرَتْہُ عَلیٰ مِنْہَاجِ الدِّیْنِ لِیَکُوْنَ الْکُلُّ مَحُوْطاً بِنَظْرِ الشَّارِعِ) ۔ مقدمۃ ابن خلدون ص : ۱۹۰ و منہاج الواضح ص : ۱۲۱ ۔
’’ شرائع اسلامیہ اسی لیٔے تو آئی ہیں کہ لوگوں کو تمام احوال میں خواہ وہ عبادات ہوں یا معاملات حتیٰ کہ ملکی انتظام جو لوگوں کے اجتماع کا ایک طبیعی امر ہے، دین پر ہی قائم رہنے کی تلقین کریں، تاکہ ان کے تمام معاملات شارع کی نگرانی میں تکمیل پائیں‘‘ ۔
خلاصہ کلام یہ کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، امام ابو اسحاق ابراہیم بن موسیٰ شاطبی ، امام ابو بکر محمد بن ولید طرطوشی مالکی ، امام ابن دقیق العید ، امام شاہ ولی اللہ محدِّث دہلوی اور علّامہ عبد الرحمن بن خلدون کی مذکورہ بالا تصریحات سے واضح ہوا کہ شریعت نے جن عبادات اور طاعات کو مطلق چھوڑا ہے، ان میں اپنی طرف سے قیود لگانا یا ان کی کیفیت اور ہیئت کو بدل دینا یا ان کو اوقات معیّنہ کے ساتھ معیّن کر دینا گو یا دین کو بدل دینا ہے، اور اسی کا نام تحریفِ دین ہے ،جو کہ گمراہی کے ساتھ ساتھ بدترین بدعت بھی ہے ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ثابت شدہ عبادات اور طاعات میں اپنی طرف سے قیود عائد کرنے اور ان کی ہیئت کو تبدیل کرنے کوبدعت شمار کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نمازِ چاشت کی جماعت کوبدعت کہا اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سُبْحَانَ اللّٰہِ ، الَلّٰہُ اکْبَرُ اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا مخصوص انداز میں وظیفہ پڑھنے والوں کو ڈانٹ پلاتے ہوئے ان کے اس مخصوص کیفیت والے وظیفہ کو گمراہی اور موجبِ ہلاکت قرار دیا تھا ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ پڑھی ہوئی نماز کی باجماعت تکرار اور اس پر دوام اور اصرار اور پھر اس کا اہتمام درست نہیں کہ یہ نہ تو رسول اللہ ﷺ سے