کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 98
اِحکام الاحکام ج : ۲ ، ص : ۱۷۲ ۔
’’اسی کے قریب یہ بات بھی ہے کہ کوئی عبادت شریعت میں کسی خاص طریقہ پر ثابت ہو ،اور کوئی شخص اس میں کوئی غیر شرعی چیز شامل کرکے تبدیل کردے اور یہ خیال کرے کہ یہ چیز اس عبادت کے عموم میں داخل ہے تو اس کا یہ خیال درست اور صحیح ہرگز نہیں ہوگا ،کیونکہ عبادات میں تعبّدی طریقہ غالب ہے اور اس کا ماخذ [ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے] اطلاع پائے بغیر معلوم نہیں ہوسکتا ‘‘۔
w مجدِّد وقت شاہ ولی اللہ محدِّث دہلوی رحمہٗ اللہ وضاحت فرماتے ہیں :
(وَ مِنْہَا التَّشَدُّدُ وَ حَقِیْقَتُہٗ اِخْتِیَارَاتُ عِبَادَاتٍ شَاقَّۃٍ لَمْ یَاْمُرْ بِہَا الشَّارِعُ کَدَوَامِ الصِّیَامِ وَ الْقِیَامِ وَ التَّبَتُّلِ وَ تَرْکِ التَّزَوُّجِ وَ أَنْ یَّلْتَزِمَ السُّنَنَ وَ الْآدَابَ کَاِلْتِزَامِ الْوَاجِبَاتِ … فَاِذَا کَانَ ہٰذَا الْمُتَعَمِّقُ وَ الْمُتَشَدِّدُ مُعَلِّمُ قَوْمٍ وَ رَئِیسُہُمْ ظَنُّوْا أَنَّ ہٰذَا أَمْرُ الشَّرْعِ وَ رِضَاہُ وَ ہٰذَا أَدَائُ رُہْبَانِ الْیَہُودِ وَ النَّصَاریٰ) ۔ حجۃ اللہ البالغۃ، باب احکام الدین من التحریف ج:۱ ،ص: ۴۰ ۔
’’دین میں تحریف کے جہاں اور اسباب بھی ہیں، وہاں ان میں سے ایک یہ سبب بھی ہے کہ دین میں تشدّد اختیار کیا جائے ۔ اور تشدّد کی حقیقت یہ ہے کہ ایسی مشکل عبادات کو اختیار کرلیا جائے ، جن کے متعلق شارع نے کوئی حکم نہیں دیا ۔ مثلاً کوئی شخص دوامی طور پر روزہ رکھے ، قیام کرے ، تخلیہ میں بیٹھا رہے اور نکاح کرنے سے گریز کرے ۔ اور مثلاً یہ کہ سنتوں اور مستحبات کا ایسا التزام کرے جیسا کہ واجبات کیلئے کیا جاتا ہے [ تو اس کا ایسا کرنا راہبانِ یہود و نصاریٰ کی ادا یعنی تحریفِ دین کا دروازہ کھولنا ہے ] جب کوئی متعمّق اور متشدّد شخص خیر سے کسی قوم کا استاذ یا سردار بھی ہو تو پھر لا محالہ وہ قوم یہ خیال کرلیتی ہے کہ ان کے استاذ یا سردار کا یہ عمل شرع کا حکم اور اس کا پسندیدہ امر ہے ۔ اور یہی بیماری تھی یہودیوں اور نصاریٰ کے صوفیوں میں ‘‘ ۔
آگے فرمایا :’’اِسی کا نتیجۂ بد یہ نکلا کہ شریعتِ موسوی و عیسوی تحریف کا ملغوبہ بن کر رہ گئی اور تورات و انجیل اپنے حقیقی وجود کو کھو بیٹھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قانونِ الٰہی نے انسانوں کو ان کی اپنی مرضی پر نہیں چھوڑا ۔ عبادات و معاملات بلکہ یہاں تک کہ حکومت اور سلطنت کے احکام میں بھی